حتیٰ کہ آج رات خدائے قدوس نے اپنے فضل مخصوص سے اس عاجز پر علم وعمل کی وہ راہیں کھول دیں کہ مجھ سے پہلے لاکھوں رہروان منزل اس کے خیال اور تصور سے بھی محروم رہے تھے اور وہ اسرار وحقائق منکشف فرمائے جن کا زبان پر لانا مذہب وطریقت میں ممنوع ہے۔ البتہ مختصراً اتنا کہنے کا مجاز ہوں کہ آج رات دو فرشتے حوض کوثر کا پانی لے کر میرے پاس آئے مجھے اپنے ہاتھ سے غسل دیااور کہنے لگے ’’السلام علیک یا نبی اﷲ‘‘ مجھے جواب میں تأمل ہوا اور گھبرایا کہ واﷲ اعلم یہ کیا ابتلاء ہے۔ ایک فرشتہ بزبان فصیح یوں گویا ہوئے ’’یا نبی اﷲ، افتح فاک باسم اﷲ الازلی‘‘ {اے اللہ کے نبی بسم اﷲ کہہ کر ذرا منہ کھولئے۔} میں نے منہ کھول دیا اور دل میں بسم اﷲ الازلی کا ورد کرتا رہا۔ فرشتے نے ایک سفید سی چیز میرے منہ میں رکھ دی یہ تو معلوم نہیں وہ چیز کیا تھی البتہ اتنا جانتا ہوں کہ وہ شہد سے زیادہ شیریں مشک سے زیادہ خوشبو دار اور برف سے زیادہ ٹھنڈی تھی۔
اس نعمت خداوندی کا حلق سے نیچے اترنا تھا کہ میری زبان گویا ہوگئی اور میرے منہ سے یہ کلمہ نکلا: ’’اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ واشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ یہ سن کر فرشتوں نے کہا کہ محمدﷺ کی طرح تم بھی رسول اﷲ ہو۔ میں نے کہا میرے دوستو تم یہ کیسی بات کہہ رہے ہو۔ مجھے اس سے سخت حیرت ہے۔ بلکہ میں تو غرق خجالت میں ڈوبا جاتا ہوں۔ فرشتے کہنے لگے خدائے قدوس نے تمہیں اس قوم کے لئے نبی مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا جناب باری نے تو سیدنا محمدﷺ روحی فداہ کو خاتم الانبیاء قرار دیا ہے اور آپ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا ہے۔
اب میری نبوت کیا معنی رکھتی ہے؟ کہنے لگے درست ہے مگر محمدﷺ کی نبوت مستقلی حیثیت رکھتی ہے اور تمہاری بالتبع ظلی بروزی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام قادیانی نے انقطاع نبوت اور خاتم الانبیاء کے بعد ظلی بروزی نبی بننے میں اسحاق اخرس کی شاگردی کی ہے اور اس کا واقعہ تواریخ میں پڑھ کر مستفیض ہوا ہے۔ ورنہ اس کا قرآن وحدیث اور اقوال سلف صالحین میں کہیں وجود نہیں پایا جاتا بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : ’’انا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘ {یعنی میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔}
اور ارشاد فرمایا ’’لو کان بعدی نبی لکان عمر‘‘ {اگر میرے بعد کوئی مرتبہ نبوت پر فائز ہوتا تو وہ حضرت عمرؓ ہوتے۔} تو ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مرزا کا دعویٰ نبوت شیطانی مکروفریب اور اپنے استاد کی پیروی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ آئیے اسحاق اخرس کا