سے شہر کا رخ کیا کہ اعیان شہر کو بھی خداوند عالم کی قدرت قاہرہ کا یہ جلوہ دکھائیں۔ شہر پناہ کے دروازہ پر آئے تو اس کو مقفل پایا۔ چابی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ان لوگوں پر خوش اعتقادی اور گرم جوشی کا بھوت اس درجہ کا سوار تھا کہ شہر کا مقفل دروازہ اور اس کی سنگین دیواریں بھی ان کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں۔ کسی نہ کسی تدبیر سے شہر میں داخل ہوگئے۔ اب صدر مدرس صاحب تو آگے آگے جارہے تھے اور دوسرے مولوی حضرات اور ان کے تلامذہ پیچھے پیچھے سب سے پہلے قاضی شہر کے مکان پر پہنچے۔
قاضی رات کے وقت اس غیر معمولی ازدہام اور اس کا شوروپکار سن کر مضطربانہ گھر سے نکلے اور ماجرا دریافت کیا۔ بدنصیبی سے قاضی صاحب بھی پیرایہ حزم اور دور اندیشی سے عاری تھے۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو سب مجمع کو ساتھ لے کر جھٹ وزیر اعظم کے در دولت پر جا پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا۔ وزیر با تدبیر نے ان کی رام کہانی سن کر کہا کہ ابھی رات کا وقت ہے۔ آپ لوگ جاکر اپنی اپنی جگہ آرام کریں۔ دن کو دیکھا جائے گا۔ کہ ایسی بزرگ ہستی کی عظمت شان کے مطابق کیا کارروائی مناسب ہوگی۔ غرض شہر میں ہلڑ مچ گیا۔ باوجود ظلمت شب کے لوگ جوق در جوق چلے آرہے تھے اور خوش اعتقادوں نے ایک ہنگامہ برپا کررکھا تھا۔ قاضی صاحب رئوسائے شہر کو ساتھ لے کر اس بزرگ ہستی کا جمال مبارک دیکھنے کے لئے مدرسہ میں آئے مگر دروازہ کو مقفل پایا۔ اسحاق اندر ہی تھا۔
قاضی صاحب نے نیچے سے پکار کر کہا حضرت والا! آپ کو اسی خدائے ذوالجلال کی قسم جس نے اس کرامت ومنصب جلیل سے نوازا۔ دروازہ کھولئے اور مشتاقان جمال کو شرف دیدار سے مشرف فرمائیے۔ یہ سن کر اسحاق بول اٹھا۔ اے قفل کھل جا اور ساتھ ہی کسی حکمت عملی سے کنجی کے بغیر قفل کھول دیا۔ قفل کے گرنے کی آواز سن کر لوگوں کی خوش اعتقادی اور بھی دو آتشہ ہوگئی۔ لوگ بزرگ کے رعب سے ترساں ولرزاں تھے۔دروازہ کھلنے پر سب لوگ اسحاق کے روبرو نہایت مؤدب ہوکر جابیٹھے۔ قاضی صاحب نے نیاز مندانہ لہجہ میں التماس کی کہ حضور والا! سارا شہر اس قدرت خداوندی پر متحیر ہے۔ اگر حقیقت حال کا چہرہ کسی قدر بے نقاب فرمایا جائے تو بڑی نوازش ہوگی۔
اسحاق کی ظلی بروزی نبوت
اسحاق جو اس وقت کا پہلے ہی منتظر تھا نہایت ریاکارانہ لہجہ میں بولا کہ چالیس روز پیشتر ہی فیضان کے کچھ آثار نظر آنے لگے تھے۔ آخر دن بدن القائے الٰہی کا سرچشمہ موجیں مارنے لگا۔