کامل دس سال تک گونگا بنا رہا
اصفہان پہنچ کر ایک عربی مدرسہ میں قیام کیا اور یہاں ایک تنگ وتاریک کوٹھری میں پورے دس برس تک ایک عزلت میں پڑا رہا۔ یہاں اس نے اپنی زبان پر ایسی مہر سکوت لگائے رکھی کہ ہر شخص اسے گونگا یقین کرتا تھا۔ اس شخص نے اپنی نام نہاد جہالت و بے علمی اور تصنع آمیز عدم گویائی کو اس اثبات واستقلال کے ساتھ نبھایا کہ دس سال کی طویل مدت میں کسی کو وہم وگمان تک نہ ہوا کہ اس کی زبان کو بھی قوت گویائی سے کچھ حصہ ملا ہے۔ یا یہ شخص ایک علامہ دہر اور یکتائے روز گار ہے۔
اسی بناء پر اخرس یعنی گونگے کے لقب سے مشہور ہوگیا۔ ہمیشہ اشاروں سے اظہار مدعا کرتا ہر شخص سے اس کا رابطہ مودت وشناسائی قائم تھا۔ کوئی بڑا چھوٹا ایسا نہ ہوگا جو اس کے ساتھ اشاروں سے تھوڑا بہت مذاق کرکے تفریح طبع نہ کرلیتا ہو۔ اتنی صبر آزما مدت گزار لینے کے بعد آخر وہ وقت آگیا جب کہ مہر سکوت توڑ دے اور کشور قلوب پر اپنی قابلیت اور نطق گوئی کا سکہ بٹھا دے۔ اس نے نہایت راز داری کے ساتھ ایک نہایت نفیس قسم کا روغن تیار کیا۔ اس روغن میں یہ صنعت تھی کہ اگر کوئی شخص اسے چہرے پر مل لے تو اس درجہ حسن وتجلی پیدا ہو کہ کوئی شخص شدت انوار سے اس کے نورانی طلعت کے دیکھنے کی تاب نہ لاسکے۔ اسی طرح اس نے خاص قسم کی دو رنگ دار شمعیں بھی تیار کرلیں۔
اس کے بعد ایک رات جب کہ تمام لوگ محو خواب واستراحت تھے اس نے وہ روغن اپنے چہرہ پر ملا اور شمعیں جلا کر اپنے سامنے رکھ دیں۔ ان کی روشنی میں چہرہ پر ایسی رعنائی اور دلفریبی اور چمک دمک پیدا ہوئی کہ آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔ اس کے بعد اس نے اس زور سے چیخنا شروع کیا کہ مدرسہ کے تمام مکیں جاگ اٹھے۔ جب لوگ اس کے پاس آئے تو اٹھ کر نماز میں مشغول ہوگیا اور ایسی خوش الحانی اور تجوید کے ساتھ بآواز بلند قرآن پڑھنے لگا کہ بڑے بڑے قاری بھی عش عش کر گئے۔
صدر المدرسین اور قاضی شہر کی بدحواسی
جب مدرسہ کے معلّمین اور طلباء نے دیکھا کہ مادرزاد گونگا باتیں کررہا ہے اور قوت گویائی کے ساتھ اسے اصلی درجہ کی فصاحت اور فن قرأت وتجوید کا کمال بھی بخشا گیا ہے اور اس کا چہرہ بھی ایسا درخشاں ہے کہ نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ تو لوگ سخت حیرت زدہ ہوئے۔
خصوصاً صدر مدرس صاحب تو بالکل قوائے عقلیہ کھو بیٹھے۔ صدر مدرس صاحب جس درجہ علم وعمل اور صلاح وتقویٰ میں عدیم المثال تھے اسی قدر اہل زمانہ کی عیاریوں سے ناآشنا اور نہایت سادہ لوح واقع ہوئے تھے۔
وہ بڑی خوش اعتقادی سے فرمانے لگے کیا اچھا ہو۔ اگر عمائد شہر بھی خدائے قادروتوانا کے اس کرشمۂ قدرت کا مشاہدہ کرلیں۔ اب اہل مدرسہ نے صدر مدرس کی قیادت میں اس غرض