اقول… احادیث صحیحہ مرفوعہ ہم نقل کرچکے ہیں۔ لائے کون اپنے باپ کابیٹا پکا فدائی مرزائی ہے، جو مرزا قادیانی کے وعدے کو پورا کرے؟ مرزا قادیانی نے اپنے زندگی میں بہتیری اس قسم کی شرطیں لگائیں، لیکن ایک بھی پوری نہ کی۔ اب میاں فرزند علی کو پوری کرنی چاہئے، ورنہ ہم نے سمجھا ہوا ہے کہ جھوٹوں کے وعدے جھوٹے ہی ہوا کرتے ہیں۔ اوفوا بالعقود! حکم خداوندی کی تعمیل کرنا مسلمانوں کا کام ہے۔
مرزا قادیانی وعید مندرجہ بالا کے مطابق اپنی جگہ جابسے۔ اب شرط کا روپیہ کون دے؟ وعدہ ایفا کون کرے؟ کتابوں کو جلائے توبہ کون کرے؟ اس کی تسلی کون کرے؟ مرزائیو! اگر خدا کا خوف ہے اور حضرت خاتم النبیینﷺ کی عظمت دل میں رکھتے ہو تو اس کی تعمیل صدق سے کرو۔ شرط کا روپیہ ہم نے تم کو معاف کیا۔ باقی کتابیں تو جلا ڈالو۔ توبہ تو آسان امر ہے، اس کو ہی سچے دل سے کرو۔
قول فرزند علی
اس چیلنج کا جواب نہ آج تک کسی نے دیا ہے اور نہ آئندہ کسی سے امید ہے۔ یہ اتمام حجت کے لئے کافی ہے۔
اقول… بیت
ہر آں کر میکہ درسنگ نہاں است
زمین وآسمان واوہماں است
کسی نے ایک چاہ کے مینڈک سے پوچھا کہ بتلائو سمندر کتنا بڑا ہوتا ہے؟ مینڈک نے ایک دو پھدکیاں ادھر ادھر لگا کر کہا کہ اتنا بڑا ہوگا، لیکن چاہ کے دائرہ کے برابر نہیں۔ چونکہ مینڈک نے سمندر کبھی دیکھا بھی تھا، اس لئے اس نے سمندر کو چاہ سے بڑا نہ سمجھا۔ یہی حالت فرزند علی اور دیگر مرزائیوں کی ہے۔
انہوں نے سواء تحریرات واشتہارات مرزا قادیانی کے اور کچھ نہیں دیکھااور نہ اس چاہ محدود بدائرہ سے باہر کی ہوا کھائی ہے، اس لئے ان کو مرزا قادیانی کی ہی تحریر سمندر سے بڑی نظر آئی۔ لو ہم ان کی وسعت نظری کی تشہحیذ کے لئے بتاتے ہیں کہ کتنی دفعہ یہ چیلنج مرزائیہ بری طرح ٹوٹ کر ریزے ریزے ہوچکا ہے اور مرزا جی کے دم میں دم نہیں رہا تھا۔ لیکن مرزا قادیانی کو معلوم