ثابت ہے کہ پہلے حضرت نضلہؓ مع تین سو صحابہؓ کے پہاڑ حلوان عراق پر حضرت زریب بن برثملا وصی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی اور جو گفتگو حضرت زریب بن برثملا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر تشریف لے جانے اور واپس تشریف لانے کی فرمائی تھی اس کو قبول کیا، کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا۔ پھر اس کی خبر امیر المومنین حضرت عمرؓ خلیفہ برحق حضرت رسولﷺ کو دی گئی۔ انہوں نے اس بات کو تصدیق کرکے چار ہزار صحابہ کرامؓ کو پھر اسی پہاڑ کی طرف زریب بن برثملا کی ملاقات کے لئے بھیجا ہے اور اپنا السلام علیکم کہلا بھیجا اور ذرہ بھر بھی کوئی شبہ اور وہم نہ کیا۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ تین سو صحابہؓ نے حضرت زریب بن برثملا کو بچشم خود دیکھا اور ملاقات کرکے بات چیت کی اور ان کی گفتگو کو تسلیم کیا اور پھر حضرت عمرؓ نے چار ہزار صحابہؓ کو اس پہاڑ پر بلا کسی شک وشبہ کے بھیجا۔
ان میں سے کسی ایک فرد نے بھی نہیں فرمایا کہ ہم حضرت رسول اکرمﷺ سے سنتے رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور وہ قریب قیامت کے آسمان سے نزول نہیں فرمائیں گے، بلکہ بجائے ان کے کوئی شخص زمین پر پیدا ہوگا۔ پس یقیناثابت ہوگیا کہ چار ہزار تین سو صحابہؓ معہ حضرت خلیفۃ الرسولﷺ اس عقیدہ پر تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بجسدہ آسمان پراٹھائے گئے تھے اور قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور یہ ضرور ہے کہ یہ عقیدہ اجماعیہ تمام صحابہ کرامؓ کا بموجب آیات قرآنی اور اشارات حضرت خاتم النبیین والمرسلین جناب حبیب رب العالمین محمد مصطفیﷺ کے تھا اور آنحضرتﷺ جن پر نزول قرآن شریف بذریعہ وحی جبرائیل علیہ السلام ہوا حکم خداوندی کے کامل واکمل واتم فہمید رکھنے والے تھے۔ جو کچھ حکم خداوندی تھا اسی پر اجماع ہوا، پس فارق اجماع کی رہائش جہنم ہے۔ اب تو مرزائیوں کو توبہ کرنی چاہئے۔
۲… امام الائمہ سراج الامۃ حضرت ابو حنیفہؓ اپنی کتاب فقہ اکبر میں فرماتے ہیں۔ ’’وخروج الدجال ویاجوج وماجوج وطلوع الشمس من المغرب ونزول عیسیٰ علیہ السلام من السماء وسائر علامات یوم القیامۃ علی ماوردت الاخبار الصحیحۃ حق کائن (فقہ اکبر ص۸،۹)‘‘ {یعنی علامات قیامت، خروج دجال اور یاجوج ماجوج، آفتاب کا مغرب سے نکلنا اور آسمان پر سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا، جو احادیث صحیحہ میں ہے وہ سچ ہے اور ہونے والا ہے۔}اسی عقیدہ پر تمام مالکی اور شافعی اور جنبلیؒ ہیں۔ اجماع ثابت ہے۔