السلام نے اس پہاڑ پر ٹھہرایا ہے اور اپنے نزول من السماء تک میری درازیٔ عمر کے لئے دعا فرمائی، جب وہ اتریں گے تو خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے اور نصاریٰ کے اختراع سے بیزار ہوں گے۔ }
پھر دریافت فرمایا کہ وہ نبی صادقﷺ بالفعل کس حال میں ہیں؟ ہم نے عرض کی کہ آپﷺ کا وصال ہوگیا ہے۔ اس وقت بہت روئے، یہاں تک کہ آنسوئوں سے تمام داڑھی تر ہوگئی۔ پھر پوچھا کہ ان کے بعد کون تم میں خلیفہ ہوا؟ ہم نے جواب دیا کہ حضرت ابو بکرؓ۔ پھر فرمایا کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ ہم نے کہا کہ وہ بھی انتقال فرما گئے ہیں۔ پھر فرمایا ان کے بعد کون تم میں خلیفہ ہیں؟ ہم نے کہا کہ عمرؓ۔ پھر فرمایا محمدﷺ کی زیارت مجھے میسر نہیں ہوئی، پس تم لوگ میرا سلام عمرؓ کو پہنچادینا اور کہنا کہ اے عمرؓ! عدل اور انصاف کر اس واسطے کہ قیامت قریب آگئی ہے اور یہ واقعات جو میں تم سے بیان کروں گا، ان سے عمرؓ کو خبر دار کرنا اور کہنا کہ اے عمرؓ! جس وقت یہ خصلتیں محمدﷺ کی امت میں ظاہر ہوجائیں تو کنارہ کشی کے سوا چارہ نہیں۔ یعنی جس وقت مرد مردوں سے بے پرواہ ہوں اور عورت عورتوں سے اور اپنے خلاف منصب کے ہوں گے۔ادنیٰ نسب والے آپ کو اعلیٰ کی طرف منسوب کریں اور بڑے چھوٹوں پر رحم نہ کریں اور چھوٹے بڑوں کی عزت اور توقیر چھوڑ دیں اور امر بالمعروف اس طرح متروک ہوجائے کہ کوئی اس کے ساتھ مامور نہ کیا جائے اور نہی عن المنکر ایسے کرنے لگ جائیں کہ کسی کو ان میں سے نہ روکیں اور ان کے عالم علم کی تعلیم بغرض حصول دنیا کریں اور گرم بارش ہو اور بڑے بڑے منبر بنائیں۔ قرآن مجید کو نقری اور طلائی کریں اور مسجدوں کی از حد زینت کریں اور رشوت کا بازار گرم کریں اور بڑے بڑے پختہ مکان بنائیں۔ خواہشات کی اتباع کریں اور دین کو دنیا کے بدلے بیچیں اور خون ریزیاں کریں۔ صلہ رحمی منقطع ہوجائے اور حکم فروخت کیا جائے۔ بیاج کھایا جائے اور حکومت فخر ہوجائے اور دولت مندی عزت بن جائے۔ ادنیٰ شخص کی تعظیم اعلیٰ کریں اور عورتیں زینؓ پر سوار ہوں۔ یہ باتیں کہہ کر ہم سے غائب ہوگئے۔
پس ان واقعات کو نضلہ نے سعدؓ کی طرف لکھا اور سعدؓ نے حضرت عمرؓ کی طرف تحریر کیا۔ پھر حضرت عمرؓ نے سعدؓ کو لکھا کہ تم اپنے ہمراہیوں کو ساتھ لے کر پہاڑ کے پاس اترو۔ جس وقت ان سے ملو تو میرا سلام ان کو پہنچائو، اس واسطے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعض وصی عراق کے پہاڑوں میں اترے ہوئے ہیں۔