حضرتﷺ کو کہ تم نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا احداث کیا ہے۔ بعد تمہارے پس کہوں گا میں جیسا کہ بندہ صالح یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اصل عبارت اس حدیث صحیح بخاری کی یہ ہے: ’’وانہ یجاء برجال من امتی فیوخذ بہم ذات الشمال فاقول یا رب اصحابی فیقال انک لا تدری ما احدثو بعدک فاقول لما قال العبد الصالح الحدیث‘‘
کیونکہ موت کی تشبیہ سے یہاں کچھ علاقہ نہیں مقصود یہاں اپنا عدم علم بحال امت بعد مفارقت بیان کردینا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا۔ پس جب بات یوں ہے تو پھر یہ حدیث موت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے دلیل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ سیاق اس کا دوسری بات کے لئے ہوا۔
دیگر اس حدیث سے ان کی یہ بات کیونکر ثابت ہوسکے گی کہ دوسری کئی صحیح حدیثیں جو نزول عیسیٰ علیہ السلام پر نص صریح ہیں۔ اس حدیث کے ان کے معنے کے تسلیم کی صورت میں معارض پڑی ہیں کیونکہ وہی حدیثیں حیات عیسیٰ پر اور بعد نزول ان کی وفات پر نصوص صریحہ ہویں۔ جیسا کہ پہلے مذکور ہوچکی ہیں۔ دیگر اگر اس حدیث سے موت عیسیٰ علیہ السلام کی مانی جاوے تو وہی موت مانی جانی ضروری ہے کہ جس کے یہودونصاریٰ قائل ہیں۔
اس کے سوا عیسیٰ علیہ السلام کے لئے عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے آج تک دوسرے طور کی موت کا کوئی قائل نہیں اور اس موت کا جس کے یہودو نصاریٰ قائل ہیں۔ نص قرآن ’’وما قتلوہ یقیناً‘‘ صاف رد کرتا ہے اور ان کو جھٹلاتا ہے۔
پس اگر مرزا قادیانی یہودو نصاریٰ کے دعوے کو بحال رکھیں اور اس کے قائل رہیں تو بخوشی ہم میں سے خارج ہوکر یہودونصاریٰ میں داخل رہیں اور اگر قرآن کی بات کو سچ مانیں اسی کو یقین جانیں تو اس موت کی نفی کریں۔ پھر مسلمانوں میں داخل رہیں۔ لیکن اس وقت حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل اور اپنے باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف مائل ہونا ضروری پڑتا ہے۔
اور وہ جو انہوں نے کہا کہ بخاری اس جگہ اس حدیث کو لایا سو اسی غرض سے لایا تاکہ معلوم ہو کہ ’’فلما توفیتنی‘‘ کے معنی ’’فلما امتنی‘‘ ہیں یعنی موت عیسیٰ کی ثابت کرنا مقصد ہیں۔
یہ بات غیر صحیح ہے بلکہ کذب صریح کیونکہ اس سے نتیجہ فائدہ بخش کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کردیا ہے۔ بلکہ غرض بخاری وہی ہے جو ہم نے کہا اور سیاق حدیث کا بھی