اسی پر دلالت کرتا ہے کمالا یخفی اور وہ جو انہوں نے کہا قول ابن عباس جو متوفیک ممیتک ہے۔ بخاری کا اس جگہ لانا اسی غرض پر دلالت کرتا ہے۔ یہ تو بہت ہی پوچ اور بودی بات ہے۔ کیونکہ یہ قول ابن عباس کا بتحت میں اس آیت اور حدیث کے نہیں تا ان کی بات کو کچھ لگائو ہوتا۔ بلکہ وہ قول اس حدیث کے کئی احادیث واقوال کے بعد مذکور ہے۔ اس حدیث سے بالکل بے تعلق ہے۔
’’ناظرین بخاری پر یہ بات پوشیدہ نہیں باوجود اس کے انہوں نے کہا اس مقام پر بخاری کو غور سے دیکھ کر ادنیٰ درجے کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ توفیتنی کے معنی امتنی ہیں تونے مجھے مار دیا۔
بڑی جرأت کی بات ہے کہ جھوٹ میں ایسی دلیری کرتے ہیں کہ ہم کو حیرت میں ڈالتے ہیں:
چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد
اور قسلطانی سے جو انہوں نے نقل کیا اگر سچ ہو تو بھی توجیہ بے ربط ہونے سے مقبول نہیں ہوسکتی۔
اس کے علاوہ قول ابن عباس کا ضعف اور اس کے معارض انہیں کا قول صحیح استناد کے ساتھ ہونا قریب ہم نے بیان کردیا ہے۔ دیکھ لیں پس استدلال مرزا قادیانی کا موت پر عیسیٰ علیہ السلام کے اس حدیث واثر سے بھی ثابت نہ رہا باطل ہوچکا۔ ’’الحمدﷲ‘‘
قولہ… اب جب کہ اصح الکتب کی حدیث مرفوع متصل سے جس کے آپ طالب تھے۔ حضرت عیسیٰ کی وفات ثابت ہے اور قرآن کی قطعیۃ الدلالۃ کی شہادت اس کے ساتھ متفق ہوگئی اور ابن عباسؓ صحابی نے بھی موت مسیح کا اظہار کردیا۔ اس دوہرے ثبوت کے بعد اور کس ثبوت کی حاجت ہے۔ میں اس جگہ اور دلائل لکھنا نہیں چاہتا۔
اقول… ناظرین! باتمکین اہل دین پر پوشیدہ نہیں کہ ان کی ان تینوں دلیلوں کا جواب باصواب بفضلہ تعالیٰ ہے۔ ابھی دے دیا ہے اور آگے یعنی شروع رسالہ میں تین آیتوں سے قرآن مجید کی اور کئی احادیث صحیحہ سے اور اقوال صحابہ سے جن میں ابن عباسؓ بھی داخل ہیں اور اقوال سلف صالحین اور مفسرین سے عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھائے جانا اور آخر زمانہ میں آسمان سے نازل ہوکر اور دجال کو قتل کرنا پھر بعد اس کے آپ کا وفات پانا جو یہ سب باتیں مرزا قادیانی کے خلاف میں ہم نے ثابت کردی ہیں۔ اس سے بڑھ کر عقل مند ایمان والوں کو تیقن اور تشفی کے واسطے اور کیا چاہئے؟
پس یہاں ہم بھی اس سے زیادہ دلائل لکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ ’’واﷲ یہدی من یشآء الیٰ صراط مستقیم‘‘ ماہ شوال۱۳۱۳ھ