۔ ’’ماقلت لہم الا ما امرتنی بہ ان اعبدو اﷲ ربی وربکم‘‘ یہاں حضرت عیسیٰ نے کما امرتنی نہیں کہا۔
پس معلوم ہوا کہ ما امرتنی اور کما امرتنی میں فرق ہے۔ ایسا ہی ’’ما قال العبد الصالح‘‘ اور ’’کما قال العبد الصالح‘‘ میں فرق ہے۔ ’’ومن لم یفرق بینہما فقد اخطاً خطا فاحشاً‘‘ پس استدلال آپ کا ’’اوہن من بیت العنکبوت‘‘ نکلا۔ الحمد اللہ علی ذالک۔‘‘
یہ فقیر کہتا ہے کہ مقصود اس قول سے حضرت کاﷺ تشبیہ دینا ہے۔ اپنے عدم علم کے حال سے اپنی امت کے بعد مفارقت اپنے ساتھ، عدم علم عیسیٰ علیہ السلام کا حال پس ان کی امت کی بعد مفارقت ان کی کے مقصود اس قول سے یہ کہنا نہیں کہ میں مرگیا ہوں۔ جیسا کہ عیسیٰ مر گئے۔ یعنی یہاں اپنی موت کی تشبیہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے ساتھ دینا مقصود دنہیں۔ وجہ تشبیہ اس تشبیہ میں مفارقت اور غیبو بت ہے۔
اگرچہ سبب اور طور مفارقت وغیبوبت کا جدا رہے۔ تفسیر اس کی یوں ہے: ’’ای فلما اخذتنی وقبضتنی بالاماتۃ وفارقتنی وغیبتنی عن امتی کمااخذتہ وقبضتہ بالرفع والاصعاد الیک وفارقتہ وغیبتہ عن امتہ فاقول کما قال ای عیسیٰ علیہ السلام لانی انا وعیسیٰ سواء فی عدم العلم بحال الامۃ بعد مفارقتہم‘‘ کیونکہ معنے توفی اخذالشئی وقبض الشئی ہے۔
امام جلال الدین سیوطی نے کتاب شرح الصدور کے باب مقر الارواح میں سلطان العلماء عز الدین بن عبدالسلام کے امالیہ سے نقل کیا کہ انہوں نے ’’اللہ یتوفی الاا نفس حین موتہا‘‘ کی تفسیر میں کہا ’’ای یاخذوہا وافیہ من الاجساد‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ پکڑ لیتا ہے۔ ارواح کو ان کی موت کے وقت پورا پکڑ لیتنا اجساد سے ان کے۔
اس سے معنی یتوفی کے پکڑ لینا ہوتا ہے۔ تو یہ بات ہماری تفسیر کے موافق ہوئی ہماری بات کی صحت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضرتﷺ یہ اس وقت کہیں گے کہ جب محشر میں آپ کی امت کے کئی مردوں کو پکڑے ہوئے بائیں طرف لے جائیں کے یعنی طرف دوزخ کے لے جائیں گے۔ تب حضرت ﷺ فرمائیں گے۔ یا رب یہ میرے چھوٹے اصحاب ہیں۔ پس کہا جائے گا۔