اقول… یہ مرزا قادیانی کا وہم غلط ہے کیونکہ موت اور رفع میں ترتیب طبعی ہوتی تو خصوصیت مومن کی نہ رہتی کیونکہ طبعی لوازم میں مومن اور کافر کا فرق نہیں۔ پس اس بناء پر آیت میں جو ترتیب وضعی انہوں نے ثابت کی اس کے ساتھ وہ بھی ڈھے گئی۔
قولہ… دوسری دلیل مسیح علیہ السلام کی وفات پر خود جناب رسول اﷲﷺ کی حدیث ہے۔ جس کو امام بخاری اپنی کتاب التفسیر میں اسی غرض سے لائے ہیں کہ تا یہ ظاہر کریں کہ فلما توفیتنی کے معنے لما امتنی ہیں اور نیز اہل غرض سے اس موضع پر ابن عباسؓ کی روایت سے متوفیک کے ممیتک کی بھی روایت لائی ہیں۔ تا ظاہر کریں کہ لما توفیتنی کے وہی معنے ہیں جو انی متوفیک کے معنی ابن عباسؓ نے ظاہر فرمائے ہیں۔ اس مقام پر بخاری کو غور سے دیکھ کر ادنیٰ درجہ کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ توفیتنی کے معنے امتنی ہے تونے مجھے مار دیا اس میں تو کچھ شبہ نہیں کہ ہمارے نبیﷺ فوت ہوگئے ہیں اور مدینہ منورہ میں آپ کا مزار موجود ہے۔ پھر جبکہ آنحضرتﷺ نے وہی لفظ فلما توفیتنی کا حدیث بخاری میں اپنے لئے اختیار کیا ہے اور اپنے حق میں ویسا ہی استعمال کیا ہے جیسا کہ وہ حضرت عیسیٰ کے حق میں مستعمل تھا تو اس بات کو سمجھنے میں کچھ کسر رہ گئی کہ جیسا کہ آنحضرتﷺ وفات پاگئے ایسا ہی حضرت مسیح علیہ السلام بن مریم بھی وفات پاگئے۔
اقول… اس کا جواب مولوی محمد بشیر صاحب نے اپنی تحریر چہارم میں یوں دیا۔ ’’اس مقام پر تو آپ نے بڑا مغالطہ کھایا یا دیا ہے۔ بیان اس کا یہ ہے کہ لفظ صحیح بخاری کا یہ ہے۔ فاقول کما قال العبد الصالح وکنت علیہم شہیدا مادمت فیہم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘
یہاں کاف تشبیہ ہے جو مغایرت پر دلالت کرتا ہے اگر حضرت یوں فرماتے: ’’فاقول ما قال العبد الصالح‘‘ تو استدلال آپ کا درست ہوتا جب حضرت نے کاف تشبیہ اس پر داخل کیا تو یہ دلیل مغیرت ہوئی۔ معلوم ہوا کہ حضرتﷺ کی توفی اور حضرت عیسیٰ کی توفی میں ایک مشابہت تو ہے۔ مگر عین نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ کی توفی تو بطور اصعاد ہوئی اور حضرتﷺ کی تو فی بطور موت۔
سبحان اﷲ! اﷲ تعالیٰ نے حضرت کی زبان سے کیسا لفظ نکلوایا کہ جس سے حیات مسیح میں شبہ کرنے والوں کی شبہ کا استحصال کلی ہوگیا۔ ’’الحمد اﷲ علی ذالک حمداً کثیرا طیباً مبارکاٰ کافیہ‘‘ دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے قول سورہ مائدہ میں یوں حکایت کی ہے۔