جب مرزا قادیانی اس دعویٰ میں جھوٹے نکلے تو احادیث میں جو دعویٰ کیا ہے۔ اس کو بھی اس پر قیاس کرلیں۔ پس ہماری اس تحریر سے قول ان کا بلاشبہ بہ لفظ قبض روح اور موت کرلیے۔ قطعیۃ الدلالۃ ہوگیا جو ہے باطل اور غلط ٹھہرا مرزا قادیانی ایسا جھوٹ بول کر بعض عوام کالالفام کو گمراہ کرکے آپ خدا کے پاس ماخوذ ہوجانے میں اور اہل علم اور اہل دین کے نزدیک رسوا اور فضیحت ہونے میں کیا فائدہ سمجھتے ہوں گے؟ مجھے اس سے بڑی حیرت ہے۔
قولہ: بلا فصل اوربخاری جواصح الکتب ہے۔ اس میں ہے تفسیر فلما توفیتنی کی تقریب میں متوفیک کے معنی ممتیک لکھا ہے۔
اقول : صحیح بخاری جواصح الکتب ہے۔ وہ حق ہے۔ لیکن مراد اس سے وہ احادیث مرفوعہ ہیں۔ جن کو سند کے ساتھ بخاریؒ اپنی صحیح میں لائے ہیں۔ نہ وہ احادیث جو اس میں تعلیقاً مذکور ہیں۔ ویسا ہی آثار صحابہ وغیر ہم امام سخاوی کی فتح المغیث سے مولوی محمد بشیر صاحب نے نقل کیا: ’’وما تقدم تائید حمل قول البخاری ما ادخلت فی کتاب ہذا الاماصح علی مقصود بہ وہو الاحادیث الصحیحۃ المسندۃ دون التعالیق والاٰثار الموقوفۃ علی الصحابۃ فمن بعدہم‘‘ {اور اس کلام سے جو آگے گزرا تائید ہوتی ہے حمل کرنے۔ قول بخاری وہ جو انہوں نے کہا نہیں داخل کی میں نے اپنے اس کتاب میں مگر وہی حدیثیں جو صحت کو پہنچیں۔ مقصود پر بخاری کی اس قول سے یعنی مقصود ان کا اس قول سے وہی صحیح حدیثیں ہیں جو ساتھ اسناد کے وہ لائے ہیں نہ ہی وہ حدیثیں جن کو تعلیقاً ذکر کیا یعنی بے اسناد ذکر کیا او نہ آثار صحابہ وغیرہ ہم کے جو بعد ان کے ہیں۔}
پس آثار صحابہ خصوصاً جو تعلیقاً اس میں مذکور ہیں۔ اس قول میں داخل نہیں ہوسکتے۔ پس قول ابن عباسؓ جو ممیتک ہے۔ قول صحابی بھی ہے۔ علاوہ اس کے تعلیقاً مذکور یعنی بخاری کے قول ہیں۔
پس اصح الکتب میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ سوا اس کے مولوی محمد بشیر صاحب نے اپنی کتاب حق الصریح میں اس قول کا ضعف بوجہ احسن ثابت کرکے اس کے معارض ان ہی ابن عباسؓ کا قول صحیح اسناد سے لاکے بتلایا ہے۔ شک ہو تو اس میں دیکھ لیں۔
قولہ… بلا فصل اور یہ بات ظاہر ہے کہ موت اور رفع میں ایک ترتیب واقع ہے۔ ہر ایک مومن پہلے فوت ہوتا ہے۔ پھر اس کا رفع ہوتا ہے۔ اس ترتیب طبعی پر یہ ترتیب وضعی آیت کی دلالت کررہی ہے۔ کہ پہلے انی متوفیک فرمایا اور پھر بعد اس کے رافعک کہا۔