جب ہمارے دلائل کے متعلق جو ان کی شبہے وغیرہ تھے۔ ان کے جو آیات سے بفضلہ تعالیٰ فراغت حاصل ہوچکی تو اب فقیر مرزا قادیانی کے دعویٰ دلیلوں کے جوابات کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنی تحریر سوم میں لکھا ہے۔ سو مولوی محمد بشیر صاحب نے نقل کرکے ان کا جواب بھی بتفصیل وتطویل اپنی تحریر چہارم میں دیا۔ لیکن فقیر بھی بطور مختصر کچھ لکھتا ہے۔
قول… مرزا قادیانی حق الصریح کے صفحہ ۹۴ میں اب بعد اس کے کسی قدر بطور نمونہ مسیح علیہ السلام ابن مریم کی وفات پر دلائل لکھے جاتے ہیں۔
واضح ہو کہ قرآن کریم میں ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘موجود ہے قرآن کریم کی عموم محاورہ پر نظر ڈالنے سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ تمام قرآن کریم میں توفی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ یعنی اس قبض روح میں جو موت کے وقت ہوتا ہے۔
دو جگہ قرآن میں وہ قبض روح بھی مراد لیا ہے جو نیند کی حالت میں ہوتا ہے۔ لیکن اس جگہ قرینہ قائم کردیا ہے۔ جس سے سمجھا گیا ہے کہ حقیقی معنی تو فی کے موت ہی ہیں۔
پھر دو تین سطروں کے بعد کہا بہر حال جبکہ تمام قرآن میں لفظ توفی کا قبض روح کی معنوں میں ہی آیا ہے اور احادیث میں ان تمام مواضع میں جو خدائے تعالیٰ کو فاعل ٹھہرا کر اس لفظ کو انسان کی نسبت استعمال کیا ہے۔ جا بجا موت کے ہی معنے کئے ہیں تو بلا شبہ یہ لفظ قبض روح اور موت کے لئے قطعیۃ الدلالۃ ہوگیا۔
اقول… مرزا قادیانی نے (تمام قرآن میں توفی کا لفظ قبض روح کے معنوں میں ہی مستعمل ہوا ہے) جو کہا صاف غلط ہے۔ کیونکہ بہت سی جگہ قرآن مجید میں دوسرے معنوں سے بھی آیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ میں اور آل عمران میں ہے: ’’ثم توفی فی کل نفس ما کسبت‘‘ اور اسی سورہ میں ہے ’’وانما توفون اجورکم یوم القیٰمۃ‘‘ اور سورہ نحل میں ہے۔ ’’وتوفی کل نفس ما عملت‘‘ ان سب آیتوں میں موت اور قبض روح کے معنی ہر گز نہیں ہوسکتے۔
یہاں معنے توفی کے پورا دیا جانا یا لینا مراد ہے۔ جیسا کہ قریب گزر چکا اور یہی معنے تو فی کے حقیقی واصلی ہیں نہ قبض روح وموت کے جیسا کہ ہم نے ما سبق میں توفی کے معنے پورا لینا حق کالغت کی کتابوں سے ثابت کردیا ہے۔ پس مرزا قادیانی نے قبض روح اور موت توفی کے حقیقی معنے جو کہے صاف غلط ہے۔