قولہ… بلا فصل اور سیاق وسباق آیات کا بھی انہیں معنوں کے چاہتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ کا اس کلام سے مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بن مریم نے خرد سالی کے زمانہ میں کلام کرکے اپنی نبی ہونے کا اظہار کیا۔ پھر ایسا ہی جوانی میں بھر کر اور مبعوث ہوکر اپنی نبوت کا اظہار کرے گا۔ سو کلام سے مراد خاص کلام ہے۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام نے ان یہودیوں سے کیا تھا۔ جو بے جا الزام ان کی والدہ پر لگاتے تھے اور جمع ہوکر آئے تھے مریم تونے یہ کیا کام کیا۔
پس یہی معنی منشاء کلام الٰہی کے مطابق ہیں اگر ادھیڑ عمر کے زمانہ کا کلام مراد ہوتا تو اس میں یہ آیت نعوذ باللہ لغو ٹھہرتی گویا اس کے یہ معنی ہوتے کہ مسیح نے خوردسالی میں کلام کیا اور پھر پیرانہ سالی کے قریب پہنچ کر کلام کرے گا اور درمیان کی عمر میں بے زبان رہے گا۔
اقول… سیاق وسباق آیات کا بھی انہیں معنوں کو چاہتا ہو۔ ورنہ تم نے جو کہا مجرد دعویٰ ہے یاوہم اور کہا وہ جو کہا پھر ایسا ہی جوانی میں بھر کر اور مبعوث ہوکر اپنی نبوت کا اظہار کرے گا…الخ۔ غیر صحیح ہے اور بے دلیل بات کیونکر عیسیٰ علیہ السلام نے جھولے میں سے جو بات کی اس میں یہود کے الزام باطل کا ردودفع کیا تھا یہ بات سورہ مریم میں صاف مذکور ہ ہے۔ یہود کے الزام کا دفع کہولت کی کلام تک موقوف رہنا عقل ونقل کے صاف خلاف ہے اور سلف وخلف میں سے کوئی اس کا قائل نہیں اور وہ جو انہوں نے کہا اگر ادھیڑ عمر کے زمانہ کا کلام ہوتا تو اس صورت میں یہ آیت نعوذ باﷲ لغو ٹھہرتی الی آخرہ یہ بھی باطل ہے۔
کیونکہ یہ بے جا اشکال کہل کے معنے جوانی لیں تو بھی اس وقت کے کلام پر بھی بعینہ وارد ہوتا ہے۔ اس طور سے کہ خردسالی میں کلام کیا پھر جوانی میں بھر کر کلام کرے گا اور اس کے درمیان بے زبان رہے گا واہ اچھا اعتراض کہ جس سے آپ کا قول بھی الٹ پلٹ ہوجاتا ہے۔ سو اس کی آپ کو خبر ہی نہیں اور مرزا قادیانی یہ کلام ایسا ہے جیسا کہ سورہ مریم میں اﷲ نے ’’حاکیاً عن عیسیٰ علیہ السلام فرمایا والسلام علیّ یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا‘‘ یعنی سلام یا سلامتی ہے مجھ پر جس دن پیدا ہوا میں اور جس دن مروں گا اور جس دن اٹھوں گا میں زندہ ہوکر۔
کیا اس کلام سے پیدائش کے روز اور موت کے روز اور زندہ ہوکر اٹھنے کے روز کے سوا سلام خدا کا یا سلامتی نہ ہونا ان کے لئے یعنی عیسیٰ کے لئے ثابت ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ مراد اس سے سلامتی کا دوام ہے۔ تا یوم البعث اسی طرح اس آیت میں کلام کا دوام مراد ہے۔ تازمان کہل، واﷲ اعلم!