کا جواب مرزا قادیانی نے یہ دیا کہ حکیم وہ ہے جو یبلغ الحلم کا مصداق ہو اور جو حلم کے زمانہ تک پہنچے وہ جو ان مضبوط ہی ہوتا ہے۔ جواب اس کا خاکسار کی طرف سے یہ ہوا کہ یہ عصر غیر مسلم ہے کیونکہ حلیم قرآن مجید میں صفت غلام کی آئی ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: ’’فبشرناہ بغلام حلیم‘‘ اور غلام کے معنی کو دک صغیر کے ہیں۔ ’’کما فی الصراح‘‘ پس محتمل ہے کہ حلیم …پر ماخوذ ہو حلم سے جو آہستگی اور بردباری کی معنے میں ہے۔ اس کا جواب مرزا قادیانی نے کچھ نہیں دیا۔
یہ فقیر کہتا ہے کہ حلم بالکسر جو آہنگی اور بردباری کے معنے میں ہے۔ اس کا اسم فاعل حلیم ہے۔ یعنی بردباری رکھنے والا اور حلم بضمین جو بالغ خواب دیکھنے کے معنے میں ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ ’’واذا بلغ الاطفال منکم احلم فلیستا ذنوا ‘‘ یعنی جب پہنچیں لڑکے تم میں سے بلوغ کو۔
اور شاہ ولی اﷲ دہلوی نے ترجمہ اس کا بحد احتلام لکھا ہے۔ غرض اسم فاعل اسکا محتلم اور حالم ہے۔ کتاب مبتکرمیں لکھا ہے: ’’فاذاقارب الاحتلام فہو مراہق واذا بلغ الحلم فہو محتلم وحالم‘‘ {جب قریب ہوتا ہے کو دک انزال کے یعنی بالغ ہونے کے قریب ہوتا ہے۔ تو وہ مراد حق ہے۔ یعنی اس کو مراھق کہتے ہیں۔ پھر جب وہ پہنچ جاتا ہے۔ حلم کو یعنی خواب جماع دیکھنے اور انزال کرنے کی عمر کو پس اس کو محتلم اور حالم کہتے ہیں۔}
پس مرزا قادیانی نے جو کہا حلیم وہ ہے جو یبلغ الحلم کا مصداق ہو۔ صاف غلط ہے۔ کیونکہ اس کو محتلم اور حالم کہتے ہیں نہ حلیم یہ بات اہل علم پر جو محاورہ عرب سے واقف ہیں پوشیدہ نہیں۔
اور مجاہد نے معنی کہل کے حلیم کہے سو شاید اسی اعتبار سے کہے کہ جب آدمی ادھیڑ ہوتا ہے۔ اکثر ہے کہ وہ حلیم ہوتا ہے۔ یعنی بردباری ہے۔ جوانی میں جو تند مزاج اور جلد غصے میں آتا ہے اور بے تأمل وتدبر کوئی کام کردیتا ہے۔ جب ادھیڑ ہوتا ہے۔ یہ سب چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے لوگ بزرگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس عمر میں بدن کی مضبوطی میں تھوڑا ڈھیلا پن آتا ہے۔ مرزا قادیانی نے حلیم کے معنی جوان مضبوط جو کہے حلیم کے الٹے معنی کہے۔ غرض مولوی محمد بشیر صاحب نے فتح الباری کی اور شرح قسطلانی کی اور قاموس اور تفسیر کشاف کی عبارتیں کہا۔ ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ کہل کے معنی جو ان مضبوط کے نہ صحیح بخاری میں ہیں اور نہ قاموس میں اور نہ کشاف میں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا قادیانی اپنی بات بنانے کے لئے کبھی کبھی جھوٹ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ بہت نازیبا بات ہے۔