درمیان عمر کا آدمی مراد لیتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔
اقول: بے شک صحیح ہے بلکہ مرزا قادیانی کا اس کو صحیح نہیں کہنا غیر صحیح ہے کیونکہ مولوی محمد بشیر صاحب کی اس مراد کی صحت پر کتب لغات کی گوامہی دیتی ہیں۔ مولوی محمد بشیر نے اپنی کتاب حق الصریح میں صحاح جوہری اور قاموس سے نقل کیا:’’الکہل من وخطہ الشیب ورئیت لی بجالہ‘‘ یعنی کہل وہ مرد ہے کہ جس کے بابوں میں بوڑھا پن یعنی سپیدی مخلوط ہو۔ یعنی دومویہ رہی اور دیکھی جائے اس کے لئے بزرگی۔
یعنی لوگ اس کو بزرگی کی نظر سے دیکھیں۔ کیونکہ اس عمر میں آدمی اپنی چکاری کام چھوڑ کر بردباری وحلم اختیار کرتا ہے۔ صراح میں ہے کہل مرد میانہ سال اور منتخب اللغات میں ہے۔ کہل بالفتح مرد سیانہ سال اور کشف اللغات میں ہی کہل بفتح مرد میانہ سال ونیم پیر اور غیاث میں ہے۔ کہل بالفتح مرد بانہ سال یعنی میان جوانی وپیری باشد اور کتاب المتکبر میں ہے۔
’’ثم یصیر صملاً الی اربعین سنۃ ثم یصیر کھلا الی خمسین سنۃ ثم یصیر شیخاً الی ثمانین سنۃ‘‘ {پھر ہوجاتا ہے۔ مرد تیس برس کے بعد صمل چالیس برس تک پھر ہوجاتا ہے۔ چالیس برس سے کہل پچاس تک پھر ہوجاتا ہے۔ پچاس برس سے شیخ یعنی بوڑھا اسی برس تک۔}
اور مصباح المنیرمیں لکھا ہے:’’شب الصبی یشب من باب ضرب شبابا وشبیبۃ وہو شاب وذالک قبل من الکہولۃ‘‘ {جوان ہوا بچہ یا جوان ہوگا یہ باب سے ضرب یضرب کے ہی مصدر اس کا شباب وشبیہ ہے اور اسم فاعل اسکا شاب ہے۔ یعنی جوانی رکھنے والا اور یہ عمر پہلے عمر کہولت کی ہے۔}
یعنی جوانی کے بعد کہل یعنی ادھیڑ ہوتا ہے۔ پس جب عیسیٰ علیہ السلام کو صحیح قول کے رو سے تینتیس سال کے اندر اﷲ نے اٹھالیا ہے۔ تو جوانی میں اٹھا لینا ثابت ہوا۔ پس کہولت یعنی ادھیڑ ہونا ان کے لئے باقی رہا۔
قولہ… بلافصل صحیح بخاری میں دیکھے جو کتاب اﷲ کے بعد اصح الکتب ہے۔ اس میں کہل کے معنے جوان مضبوط کے لکھے ہیں اور یہی معنے قاموس اور تفسیر کثاف وغیرہ میں موجود ہیں۔ انتہی
اقول… اس کی جواب میں مولوی محمد بشیر نے یہ لکھا اس کا جواب خاکسار کی طرف سے یہ ہوا کہ صحیح بخاری میں تویہ ہے۔
’’قال مجاہد الکہل الحلیم‘‘ جو ان مضبوط اس سے کس طرح سمجھا جاتا ہے؟ اس