کیونکہ چہرہ مقتول کا چہرہ عیسیٰ کا ہے نہ جسد۔
اور وہ جو مرزا قادیانی نے کہا ان دونوں آیتوں کے ملانے سے کہ جن میں ایک وعدہ کی آیت اور ایک ایفائے وعدہ کی آیت ہے۔ آپ پر کھل جائے گا الی آخرہ یہ بات اس وقت صحیح ہوتی کہ توفیٰ کے معنے موت ہی کے ہوتے اور بھی رافعک پر فاء یا ثم آیا ہوتا کیونکہ فاء اور ثم واسطے ترتیب کے ہے نہ وائو۔
پس جب یہ دونوں بات نہیں تو پھر مرزا کا جزم کرنا مقدم ہونے پر موت کے رفع پر کس طرح صحیح ہوسکے ہر گز نہیں اور ہم نے جو کہا یہ بات اس کو صحیح ہوتی کہ توفی کے معنی موت ہی کے ہوتے سو وہ اس لئے ہے کہ توفی کے معنی نیند کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنی اکثر مفسرین متقدمین کے نزدیک مراد ہیں جیسا کہ ابن کثیر کی تفسیر سے فاضی عبید اللہ صاحب نے اپنے فتویٰ میں نقل کیا: ’’وقال الاکثرون المراد بالو فاۃ ہنا النوم کما قال اﷲ تعالیٰ وہو الذی یتوفٰکم با للیل الاٰیۃ وقال اﷲ یتوفیٰ الا نفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا الاٰیۃ‘‘ پس جب ان دونوں آیتوں کی سند سے اکثر مفسرین نے کہ جن میں حسن بصری اور ربیع ابن انس بھی ہیں۔ یہاں توفی سے مراد نیند لی ہے تو مرزا قادیانی کا ان کے خلاف میں موت ہی کے معنی مراد لینا کیوں کر صحیح ہو سکے گا یہ بات کسی عالم عاقل پر پوشیدہ نہ ہوگی۔
پس اس تحریر سے ہماری صاف ان کے دعویٰ کا بطلان ظاہر ہوچکا اور وہ جو انہوں نے اپنی تیسری تحریر میں کہا یہ بات ظاہر ہے کہ موت اور رفع میں ایک ترتیب طبعی واقع ہے۔ ہر ایک مومن پہلے فوت ہوتا پھر اس کا رفع ہے۔ اسی ترتیب طبعی پر یہ ترتیب واضعی آیت کی دلالت کررہی ہے۔ کہ پہلے متوفیک فرمایا اور پھر بعد اس کی رافعک کہا۔
اقول… یہ مرزا قادیانی کا وہم ہے کیونکہ درمیان موت ورفع کے اگر ترتیب طبعی ہوتی تو خصوصیت مومن کی نہ رہتی کیونکہ طبعی لوازم میں مومن وکافر کا فرق نہیں پس اس سے آیت میں ترتیب وضعی جو بتائی وہ بھی باطل ہوچکی ہے۔ غرض ہماری اس تحریر سے ان کے دعوے کا بطلان ظاہر ہوچکا۔ پس عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ طرف آسمان کے اٹھائے جانے میں اور قریب قیامت کے پھر آسمان سے دمشق کی شرقی سفید منارہ کے پاس دو ملک کے بازئووں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اترنے میں۔ جیسا کہ آگے صحیح حدیثوں سے تفصیل گزر چکا۔ کچھ شک نہ رہا۔
قولہ… دوسرا مرزا قادیانی کا تحریر اول میں جیسا کہ حق الصریح میں لایا گیا ہے دوسری دلیل آپ نے یہ پیش کی ہے: ’’ویکلم الناس فی المہد وکہلاً‘‘ اور آپ کہل کے لفظ سے