وکہلاً کے ساتھ موافقت بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس آیت میں ادھیڑ عمر تک عیسیٰ علیہ السلام کا پہنچنا ثابت ہے۔
اور ان کو مکر سے پوری تسلی بھی حاصل ہوتی ہے اور متوفی کے معنی متوفی ہونے ثابت ہے۔ مصباح المنیرمیں ہے۔ ’’وتوفیتہ واستوافیتہ‘‘ یعنی توفیتہ اور استوفیہ کے ایک ایک معنی ہیں اور صراح میں ہے استیفا وتوفی تمام گرفتن حق۔ دوسری صورت یہ کہ معنے متوفیک کے قبض کے لیں یعنی میں تجھ کو قبض کرنے والا ہوں۔ پورا یعنی باجسم کیونکہ توفی کے لغوی معنی ’’اخذ الشئی وافیاً‘‘ ہیں۔ یعنی ایک چیز کا پورا لے لینا اگر اللہ تعالیٰ فقط رافعک الیّٰ کہتا تو بعض لوگوں کو یوں سمجھنے کی گنجائش نکلتی کہ فقط روح عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اٹھائی گئی نہ باجسد جیسا کہ دوسرے مومنوں کی روح اٹھائی جاتی ہیں۔
تب یہ بات موت عیسیٰ کی نفی جو نص قرآن سے ثابت ہے۔ اس کے معارض پڑتی۔ اس لئے اللہ نے متوفیک بھی اس کے آگے فرمایاتا دلالت کرے یہ کلام کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ نے پورا باجسد وجان اٹھا لیا۔ امام رازی نے بھی تفسیر کبیر میں کئی وجوہ بیان کیے ہیں۔ سو چھٹویں وجہ میں اس کو بھی بیان کیا ہے اور یہ معنی لغت اور محاورۂـ عرب کے بھی برابر ہیں اور اس پر شواہد قرآنی بھی موجود ہیں۔
صراح میں ہے تو فی تمام گرفتن حق اور منتخب اللغات میں ہے توفی تمام بستاندن اور قول عرب وفانی فلاں دراہمی فتوفیتہا منہ یعنی فلاں نے میرے پورے درہم دے دئیے۔ پس میں نے پورے درہم اس سے قبض کرلئے اور شواہد قرآنی سورۂ بقر:۲۸۱، جز تلک الرسل میں ہے:’’واتقوا یوماً ترجعون فیہ الی اﷲ ثم توفیٰ کل نفس ما کسبت وہم لا یظلمون‘‘ {ڈرو تم اس روز سے کہ پھیرے جائو گے تم اس روز طرف اللہ کے پھر پورا ملے گا ہر جان کو جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔}
اور سورہ آل عمران:۱۶۱، جز لن تنالوا میں ہے ’’ثم توفی کل نفس ما کسبت وہم لا یظلمون‘‘ { پھر پوری ملے گی ہر جان کو اس کی کمائی اور اان پر ظلم نہ ہوگا۔}
اور اسی سورہ میں ہے:’’وانما توفون اجورکم یوم القیمۃ‘‘ یعنی سو اس کے نہیں کہ تم پورا دئیے جائو گے اپنا اجر روز قیامت میں۔
اور سورہ نحل:۱۱۱ میں ہے: ’’وتوفی کل نفس ما عملت وہم لا یظلمون‘‘ یعنی پوری دی جائے گی ہر جان کو جزا اس کے عمل کی اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔