جاتی ہے نہ کہ جسم۔ انتہیٰ۔
اقول… اس تقریر میں مرزا قادیانی نے بڑی محنت اٹھائی اور اپنی نظر دقیق بہت دوڑائی باایں ہمہ وہ نظر ذرہ وہ تحقیق تک نہ پہنچی بسبب کو رہونے اس کے کہ کیونکہ انہوں نے انی متوفیک کے ماقبل کی آیت پر جو ’’مکرواومکراﷲ واﷲ خیر المکرین (آل عمران:۵۴)‘‘ ہے اور اس قصہ کے ساتھ متعلق ہے۔ نظر نہ ڈالی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہود نے مکر کیا اور اﷲ نے بھی مکر کیا اور اﷲ نیک تر ہے مکر کرنے والوں کا۔ یعنی اللہ کا مکر قوی تر ہے۔ کوئی اس کو پھیرنے والا نہیں۔
یہود کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے چاہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو حالت غفلت میں ناگاہ مار ڈالیں تا بھاگنے نہ پاوے سو انہوں نے ایسی ہی تجویز کی۔ اﷲ نے ان کی اس تجویز سے عیسیٰ علیہ السلام کو خبردار کردیا اور ان کی تسلی کے لئے یہ فرمایا: ’’عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ (آل عمران:۵۵)‘‘ اگر اس متوفیک کے معنی اس طرح کہے جائیں جیسا کہ مرزا قادیانی اور ان کے اتباع کہتے ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ میں تجھ کو اب مار ڈالنے والا ہوں اور تیری روح کو اپنی طرف اٹھالینے والا ہوں۔ یہ ہرگز درست نہ ہوگا کیونکہ اس بات سے عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے مکر کی آفت سے جو موت کی دہشت ہے کیا تسلی حاصل ہوسکتی ہے؟ بلکہ اس بات سے اور دہشت ان کی بڑھ جائے گی اور پھر اس سے یہودیوں کے مکر کا کیا رد نکلتا ہے؟ بلکہ اس سے یہودیوں کی مراد ہی حاصل ہوتی ہے۔
کیونکہ وہ بھی تو عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے ہر طرح خواہاں تھے کسی طور سے ہو ان کا مرجانا ہی یہود چاہتے تھے۔ دیگر اس کام سے یعنی خدائے تعالیٰ کی بالفعل عیسیٰ علیہ السلام کو مار ڈالنے سے یہود کے مراد کا کیا خلاف ہوا اور ان کے مکر کا کیا رد نکلا اور اپنا مکر ان پر کیا چلایا جو آپ کو خیر الماکرین کہا۔
پس ’’انی متوفیک‘‘ میں معنی میں تجھ کو اب مار ڈالنے والا ہوں کہنا درست نہ ہوا تو اس کے دوسرے معنی کہنا ضرور ہوئے۔ ایسے معنے کہ دوسری آیتوں کی قطعی معنوں کے ساتھ مخالف نہ پڑیں۔
اس کی کئی صورتیں ہیں ایک یہ کہ معنے متوفیک میں یوں کہیں۔ ’’ای انی مستوفٍ اجلک ومتمم عمرک حتی تبلغ الکہولۃ وانی رافعک الیّٰ الاٰن من غیر قتل وصلب بایدیہم‘‘ یعنی میں تیری اجل اور عمر کو پوری کرنے والا ہوں۔ تا پہنچے تو ادھیڑ عمر کو اور بالفعل میں تجھ کو اپنی طرف اٹھالینے والا ہوں بغیر قتل اور سولی کی ہاتھوں سے یہود کی اس معنے کو آیت