کے قول کو صحیح وحق مان لیتے۔ پس بغیر ابطال اس کے مرزا قادیانی کا یہ کہنا لیکن حضرت آپ کی سخت غلطی ہے۔ بڑی زبردستی کی بات ہے اور اس فقیر کے نزدیک یہ آیت اس باب میں اول درجہ کی ہے۔ کیونکہ یہ آیت نہ ذوالوجوہ ہے اور نہ کسی کا سلف وخلف کے مفسرین سے اس میں اختلاف ہے۔
قولہ… بلافصل نفی قتل اور نفی مصلوبیت سے صرف یہ مدعا اﷲ جل شانہ کا ہے کہ مسیح علیہ السلام کو اللہ جل شانہ نے مصلوب ہونے سے بچالیا۔
اقول… قتل اور مصلوب ہونے سے بچالیا کہنا ضرور تھا سو مرزا قادیانی نے قتل کو حذف کردیا۔ سو اس کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ قتل سے بھی بچالیا۔ کہنے سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کی ثابت ہوجاتی ہے وہ ان کی مطلب اور مدعا کے خلاف ہے۔ ’’نعوذ باﷲ من ہذہ الخیانۃ‘‘ اگر مرزا قادیانی اس قول کو اپنا جواب استدلال مولوی صاحب مذکور کا سمجھتے ہیں تو یہ ان کی سخت غلطی ہے۔ کیونکہ مولوی صاحب کے اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ جب خدا نے قتل اور سولی پر چڑھانے سے عیسیٰ علیہ السلام کو بچا لیا تو عیسیٰ علیہ السلام کا باجسم وجان سلامت رہنا ثابت ہوگیا۔ پھر اس کے ساتھ ان کا رفع طرف اپنے فرمایا تو صاف ثابت ہوگیا ہے کہ ان کو ساتھ جسم وجان کے اپنی طرف اٹھا لیا۔ پس اس سے زیادہ بصراحت تمام عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا ثبوت اور کیا ہوگا۔ پھر یہ بات غلط کیسے ہوئی۔ بلکہ مرزا قادیانی کا اس کو غلط کہنا سخت غلط اور نہایت بے جا ہے۔
قولہ… بلا فصل اور آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ اسی وعدہ کو ایفاء کی طرف اشارہ ہے۔ جو دوسری آیت میں ہوچکا ہے اور اس آیت کو ٹھیک ٹھیک معنی سمجھنے کے لئے اس آیت کو بغور پڑھنا چاہئے۔ جس میں رفع کا وعدہ ہواتھا اور وہ آیت یہ ہے: ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّ (آل عمران:۵۵)‘‘ حضرت اس رافعک الیّٰ میں جو رفع کا وعدہ دیا گیا تھا۔ یہ وہی وعدہ ہے جو آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ میں پورا کیا گیا۔
اب آپ وعدہ کی آیت پر نظر ڈال کر دیکھئے کہ اس کے پہلے کونسا لفظ موجود ہے۔ فی الفور آپ کو نظر آجائے گا کہ اس سے پہلے ’’انی متوفیک‘‘ ہے اب ان دونوں آیتوں کے ملانے سے جس میں ایک وعدہ کی آیت اور ایک ایفاء وعدہ کی آیت ہے۔ آپ پر کھل جائے گا کہ جس طرز سے وعدہ تھا اسی طرز سے وہ پورا ہونا چاہئے تھا۔
یعنی وعدہ یہ تھاکہ اے عیسیٰ میں تجھے مارنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ اس سے صاف کھل گیا کہ ان کی روح اٹھائی گئی ہے۔ کیونکہ موت کے بعد روح ہی اٹھائی