اور آثار صحابہ وتابعین کے یعنی اقوال ابو ہریرہ اور ابن عباسؓ اور ابو مالکؒ اور حسن بصریؒ وغیرہم کے تحت میں بیان پچھلی دو آیت کے گزر چکے۔ اعادہ کی حاجت نہیں۔ پس اس قدر قوت کے ساتھ جو بات دین کی ثابت ہو اس کے ماننے کی اہل ایمان کو کس قدر ضرورت ہے اور اس کے نہ ماننے میں کس قدر خرابی دین وایمان کی متصور ہے۔ سو ادنیٰ مومن پر بھی پوشیدہ نہ ہوگی۔
قطع نظر اگلے دلائل قطعی وظنی آیات واحادیث وغیر ہاکی فقط اس حدیث مرسل کو حسن بصری کی مرزا قادیانی اور ان کی اتباع کو ماننا ہی ضرور ہوا کیونکہ وہ حنفی کہلاتے ہیں۔ پس اپنا دعویٰ جو عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ نہ رہنے کا کررہے ہیں۔ چھوڑ دینا اور ان کی حیات کی اور پھر دنیا میں نازل ہونے کے۔ قابل ہوجانا ضروری ہے۔ وگرنہ ضدی جہلاء میں شمار کئے جائیں گے۔ دیگر مرزا قادیانی نے آیت بل رفعہ اﷲ کی استدلال پر اور آیت وکہلاً جو شبہے اور اعتراض اپنی تحریرات میں کئے ہیں۔
اور وہ کتاب حق الصریح میں مندرج ہیں۔ لکھ کر ان کے جوابات شافی طور بحولہ تعالیٰ وقوتہ دیتا ہوں تا اس کے ضمن میں ان کی دونوں دلائل ایک آیت سورہ آل عمران کی ’’واذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا‘‘ اور دوسری آیت سورہ مائدہ کی ’’فلما توفیتنی انت الرقیب علیہم‘‘ کا جواب بھی حاصل ہوجائے۔ قول مرزا غلام احمد قادیانی جو کتاب حق الصریح کے ص۴۵ میں مندرج ہے۔ تیسری دلیل آپ نے یہ پیش کی ہے۔ سورہ نساء میں ہے ’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ وکان اﷲ عزیزاً حکیما‘‘ آپ اس میں بھی قبول کرتے ہیں کہ آیت قطعیۃ الدلالۃ نہیں مگر باوجود اس کے آپ کے دل میں یہ خیال ہے کہ اس رفع سے رفع مع الجسد مراد ہے۔ کیونکہ ’’وما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع قطعاً روح مع الجسد ہے لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر کا مرجع بھی روح مع الجسد ہے۔ لیکن حضرت آپ کی یہ سخت غلطی ہے۔
۱… قول! مولوی محمد بشیر صاحب کو اگرچہ اگلی تحریر کے وقت میں اس آیت کی قطعیۃ الدلالۃ بالذات ہونے میں تردد تھا۔ پھر جب اﷲ نے ان پر کھول دیا تو نویں صفحے میں حق الصریح کی کہا۔ اگر چہ خاکسار نے تحریر اول میں غیر قطعیۃ الدلالۃ لکھا ہے۔ مگر اب میری رائے یہ ہے کہ یہ آیت قطعیۃ الدلالۃ ہے حیات مسیح علیہ السلام پر۔
پس اعتراض مرزا کا باطل ہوگیا۔ دیگر مرزا قادیانی نے اس استدلال مذکور کا مولوی صاحب کے کچھ جواب نہ دیا کیونکہ ان کو ضرور تھا کہ اس استدلال کا ابطال کردیتے وگرنہ ان