بصری نے قسم کھا کر یہ بات کہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے: ’’قال ابن جریر حدثنی یعقوب حدثنا ابن علیۃ حدثنا ابو رجاء عن الحسن وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موت عیسیٰ واﷲ انہ لحی الان عنداﷲ ولکن اذا نزل آمنوا بہ اجمعون‘‘ {کہا ابن جریر نے ساتھ اسناد مذکور کے حسن بصری سے تفسیر میں آیت مذکور کی مر اد قبل موتہ سے آگے موت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ قسم ہے اللہ کی بے شک وہ عیسیٰ زندہ ہیں۔ اب نزدیک اللہ کے ولیکن جب وہ نازل ہوں گے ایمان لائیں گے ان پر اہل کتاب سب۔}
پھر کہا پس معلوم ہوا کہ یہ مرسل حسن کے نزدیک قوی ہے۔ وگرنہ قسم نہ کھاتے اور بھی کہا خلاصہ میں ہے: ’’قال ابو زرعۃ کل شی ء قال الحسب قال رسول اﷲﷺ وجدت لہ اصلا ما خلا اربعۃ احادیث‘‘ {ابوزرعہ نے کہا جس حدیث کو حسن بصری نے قال رسول اﷲﷺ کہا کہا پائی میں نے اس کے لئے اصل مگر چہار حدیثیں۔}
یعنی ان کی اصل میں نے نہیں پائی۔ قولہ ملحضامیں کہتا ہوں یہ ساری تقویت مرسل حسن بصری وغیرہ کی واسطے اہلحدیث کی کیا حاجت کیونکہ حنفیہ کی بیان مطلق مرسل کہ مرسل اس کاثقہ ہوا اور قرن ثانی یا ثالث سے جو حجت ہے۔ بلکہ وہ فوق مسند ہے یہ بات تو اصول حنفیہ میں مملوہے۔ میں یہاں فقط دو کتاب اصول سے جو پرانی اور معتبرین نقل کرتا ہوں۔ اصول حسامی میں ہے۔ ’’ فالمرسل من الصحابی محمول علی السماع ومن القرن الثانی والثالث علی انہ وضح لہ الا مرواستبان لہ الا سناد وہو فوق المسند‘‘ {پس مرسل حدیث صحابی سے وہ محمول ہے سننے پر (یعنی رسول اللہ سے سننے پر محمول ہے۔) اور مرسل تابعین اور تبع تابعین کی سو وہ محمول ہے۔ اس بات پر کہ ظاہر ہوا ہو حال اس حدیث کا اور ظاہر ہوئی ہو واسطے اس ارسال کرنے والے کے اسناد اس حدیث کی اور وہ مرسل یعنی اس طرح کی مرسل حدیث بڑھ کر ہے مسند سے۔}
اور توضیح میں ہے ’’ومرسل القرن الثانی والثالث لا یقبل عند الشافعی الا ان یثبت التصالہ من طریق اخر ویقبل عندنا وعندمالک وہو فوق المسند‘‘ {اور مرسل حدیث قرن ثانی اور ثالت کی یعنی تابعین وتبع تابعین کی مقبول نہیں نزدیک شافعی کے مگر یہ کہ ثابت ہو وے اتصال اس کا دوسری طریق سے اور نزدیک ہمارے اور نزدیک امام مالک کے وہ مرسل مقبول ہے اور وہ بڑھ کر ہے مسند سے۔}