میں کہا: ’’قال الحافظ فی الفتح وروی احمد وابو داؤد باسناد صحیح من طریق عبدالرحمن بن آدم عن ابی ہریرۃ مثلہ مرفوعا وفی ہذا الحدیث ینزل عیسیٰ وعلیہ ثوبان ممصران فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعو الناس الیٰ الاسلام ویہلک اﷲ فی زمانہ الملل کلہا الا الاسلام وتقع الا منۃ فی الارض حتی ترقع الاسود مع الابل وتلعب الصبیان بالحیات وقال فی آخرہ ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون‘‘ {کہا حافظ الحدیث امام ابن حجر عسقلای نے فتح الباری میں روایت کی امام احمد اور ابو دائود نے ساتھ اسناد صحیح کی طریق سے عبدالرحمن بن آدم کی ابو ہریرہؓ سے مرفوعاً اور اس حدیث میں ہے اتریں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام اس حال میں کہ ان پر دو کپڑے رہیں گے۔ خفیف زرد رنگ کے پس توڑیں گے صلیب کو نصاریٰ کی اور مار ڈالیں گے سوروں کو اور موقف کردیں گے جزیہ لینا اور دعوت دیں گے لوگوں کو طرف دین اسلام کے اور ہلاک وبرباد کردے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میں سب دین وملت کو سوائے دین اسلام کے اور ان کے وقت ایسا امن دنیا میں واقع ہوگا کہ شیر اور اونٹ مل کر چریں گے اور بچے ساتھ سانپوں کے کھیلیں گے اور کہا آخر میں اس حدیث کے پھر انتقال کریں گے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور نماز جنازہ پڑھیں گے ان پر مسلمان۔}
اور جامع الصغیر میں ہے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا: ’’ینزل عیسیٰ ابن مریم عندالمنارۃ البیضاء شرقی دمشق طب عن اوس بن اوس‘‘ {اتریں گے عیسیٰ ابن مریم (یعنی آسمان سے آخر زمانے میں) نزدیک منارہ سفید کی جو دمشق کے مشرقی جانب میں ہوگا۔روایت کیا اس حدیث کو طبرانی نے اوس بن اوس سے۔}
اور مولوی محمد بشیر نے حق الصریح میں تفسیر ابن کثیر سے نقل کیا: ’’وقال ابن ابی حاتم حدثنا ابی حدثنا احمد بن عبدالرحمن حدثنا عبداﷲ بن ابی جعفر عن ابیہ حدثنا الربیح بن انس عن الحسن انہ قال قال رسول اﷲ ﷺ للیہود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیٰمۃ‘‘ {کہا ابن ابی حاتم نے اس مذکور اسناد سے کہا حسن بصری نے فرمایا رسول اﷲﷺ نے یہود کو تحقیق عیسیٰ نہیں مرا اور بے شک وہ پلٹ کر آنے والا ہے تمہاری طرف آگے قیامت کے۔}
اگر کوئی یوں کہے کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ قابل حجت نہیں۔ اس کا جواب مولوی صاحب موصوف یوں دیتے ہیں کہ اس مرسل کی تقویت چند طرح پر ہوسکتی ہے۔ اول یہ کہ حسن