استدلال اس آیت سے اوپر زندہ رہنے عیسیٰ علیہ السلام کے اور پھر نازل ہونے ان کے دنیا میں اس طرح پر ہے کہ اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کا ادھیڑ ہوکر لوگوں سے بات کرنا ثابت ہے اور وقت میں اٹھائے جانے ان کے طرف آسمان کے جوان تھے نہ ادھیڑ، اس بات پر اکثر مفسرین حال تاریخ کا اتفاق معلوم ہوتا ہے۔ پس جب خدا کلام میں خطا کا احتمال نہیں تو معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں پھر نازل ہوکر ادھیڑ ہوکر مریں گے۔
اس بات پر چند تفسیروں کے اقوال مشتے نمونہ از خروارے بتلاکے بعدہ احادیث واقول صحابہؓ وغیر ہم جو نازل ہونے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دلالت کرتے ہیں۔ لاکے بتلاتا ہوں۔ تفسیر معالم التنزیل میں تحت آیت: ’’اذ قال اﷲ یا عیسیٰ انی متوفیک‘‘ کے ہے۔ ’’قیل للحسین ہل تجدنزول عیسیٰ فی القرآن قال نعم قولہ تعالیٰ وکہلاً وہو لم یکتہل فی الدنیا وانما معناہ وکہلا بعد نزول من السمائ‘‘{کسی نے حسین بن فضل سے پوچھا کہ تم پاتے ہو نازل ہونا عیسیٰ علیہ السلام کا قرآن میں کہا ہاں وہ قولہ تعالیٰ وکہلاً ہے اور وہ عیسیٰ علیہ السلام ادھیڑ نہ ہوا تھا۔ دنیا میں اور نہیں ہے۔معنی اس کا مگر یہ کہ وہ ادھیڑ ہوگا بعد نازل ہونے اس کے کے آسمان سے۔}
اور مولوی محمد بشیر نے حق الصریح میں تفسیر ابو السعود سے نقل کیا: ’’وبہ استدل علی انہ علیہ السلام سینزل من السماء لانہ علیہ السلام رفع قبل التکہل۔ قال ابن عباسؓ ارسلہ اﷲ تعالیٰ وہوا ابن ثلاثین سنۃ ومکث فی رسالتہ ثلاثین شہرا ثم رفعہ اﷲ تعالیٰ الیہ‘‘ {اسی لفظ کہل سے دلیل لی جاتی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے قریب نازل ہونے پر آسمان سے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے گئے طرف آسمان کے آگے ادھیڑ ہونے کے ۔ ابن عباسؓ نے کہا اﷲ تعالیٰ نے رسالت دی عیسیٰ علیہ السلام کو اسوقت وہ تیس سال کے تھے اور ٹھہرے رہے۔ اپنی رسالت میں تیس۳۰ مہینے یعنی اڑھائی برس پھر اٹھالیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو طرف اپنے۔}
اور تفسیر کبیر سے نقل کیا:’’ قال الحسین بن الفضل وفی ہذہ الایۃ نص فی انہ علیہ السلام سینزل الی الارض‘‘ {کہا حسین بن الفضل نے اور اس آیت میں نص ہے۔ اس باب میں کہ مقررہ وہ عیسیٰ علیہ السلام قریب اتریں گے طرف زمیں کے۔}
اور بیضادی سے نقل کیا: ’’وبہ استدل علی انہ سینزل فانہ رفع قبل التکہل‘‘ {اور اسی لفظ کہل سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اس بات پر کہ وہ عیسیٰ قریب اتریں گے