سے نقل کیا۔ ’’ذہب کثیر من التابعین فمن بعد ہم الی ان المراد قبل موت عیسیٰ‘‘ {بہت سے تابعین پھر ان کے بعد کے لوگ کئی ہیں۔ طرف اس بات کے کہ بے شک مراد قبل موتہ سے عیسیٰ السلام میں۔}
یعنی ضمیر موتہ کی طرف عیسیٰ علیہ السلام کے پھرتی ہے نہ طرف کتابی کے اور بھی مولوی صاحب مذکور نے فتح الباری سے نقل کیا۔ ’’ونقلہ عن اکثر اہل العلم ورجحہ ابن جریر وغیرہ‘‘{نقل کیا اس مذہب کو یعنی قبل موتہ سے مراد قبل موت عیسیٰ ہونے کے مذہب کو اکثر اہل علم سے اور اسی کو ترجیح دیا ابن جریر وغیرہ نے۔}
ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں ’’ذہب کثیروں اولاً کثروں الی ان الضمیر یعود علی الکتابی‘‘ جو کہا غیر صحیح ہے یا مراد اس کثیروں واکثروں سے متاخرین کے مفسرین ہیں۔ نہ سلف کے غرض ضمیر کتابی کے طرف پھیر نے کی تقدیر میں بھی ہمارے مطلب میں کچھ خلل نہیں آتا۔ ہمارا مطلب بہردوصورت برآتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے آگے بیان کردیا ہے۔
اور وہ جو مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریر سوم وغیرہ میں جو مولوی محمد بشیر صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس میں ابن عباسؓ سے روایت کی سو اس کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے ضمیر قبل موتہ کی طرف کتابی کے پھیری ہے اور کہا کہ ہر کتابی اپنی موت کے وقت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے گا۔
سو اس روایت کے سب طریق میں ضعف ہے جیسا کہ مولوی محمد بشیر صاحب نے اپنی کتاب حق الصریح میں جو رد میں مرزا قادیانی کے بنی ہے۔ واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ من شاء فلینظر الیہ، سواء اس کے اس روایت کے معارض ان ہی کی وہ روایتیں ہیں کہ جن کو آگے بیان کر دیا ہے اور وہ روایتیں صحیح بھی ہیں۔ پس دوسری روایت ابن عباسؓ کی غیر صحیح رہنے سے اور ان کی ہی صحیح روایتیں جو مؤید بحدیث صحیح اور اقوال سلف ہیںؒ۔ ان کے معارض بھی ہونے سے قابل سند کے ہرگز نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر فرضاً قابل سند ہو تو بھی ہمارے مطلب کے منافی نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ ہم نے ابھی قریب بیان اس کا کردیا۔
تیسری آیت سورہ آل عمران کی ’’ویکلم الناس فی المہد وکہلاً ومن الصالحین (آل عمران:۴۶)‘‘ {اور وہ عیسیٰ بات کرے گا لوگوں سے گہوارے میں اور ادھیڑ ہوکر اور وہ صالحین سے ہے۔}