سلف وخلف سے کوئی اس بات کا قائل نہیں۔ غرض بہردوصورت ہمارا مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جب ہر فرد اہل کتاب کا قبل موت اپنی عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا تسلیم کیا جائے تو بھی ایمان صحیح ہونا ضرور ہے۔ تا اطلاق ایمان کا اس پر صحیح ہو اگر چہ وہ ایمان غیر مقبول بھی ہو بسبب ہونے اس ایمان کے ایمان باس پس ایسے ایمان کے لئے ضرور ہے کہ وہ جانے اور اقرار کرے کہ عیسیٰ علیہ السلام بندہ خدا تھے اور رسول اس کے وہ نہ خدا تھے اور نہ خدا کے بیٹے تھے اور نہ ہی وہ مارے گئے ہاتھ سے یہودیوں کے اور نہ سولی پر چڑھائے گئے بلکہ وہ بغیر مرنے کے زندہ باجسد آسمان پر اٹھائے گئے۔
جیسا کہ ان باتوں پر پہلی آیت دلالت صریح کرتی ہے۔ پس اس طرح کے ایمان سے ہمارا مقصود جو عیسیٰ علیہ السلام کا نہ مرنا اور زندہ رہنا ہے پورا ہوجاتا ہے۔ گو ضمیر قبل موتہ کی اہل کتاب کی طرف ہی پھیری جائے اور اس آیت میں اشارہ ہے طرف اس بات کے کہ پھر عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں نازل ہونے والے ہیں۔ کیونکہ مرنا ان کا باقی ہے تو دنیا میں آنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ وہی جائے موت ہے۔ اس بات کو تائید دیتی ہے۔
حدیث (بخاری ج۱ ص۴۹۰، مسلم ج۱ ص۸۷) کی: ’’وعن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲﷺ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتیٰ لا یقبلہ احد حتیٰ تکون السجدۃ الواحدۃ خیر من الدنیا وما فیہا ثم یقول ابو ہریرۃ فاقرؤا ان شئتم وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ متفق علیہ کذا فی المشکوۃ‘‘
{روایت ہے ابو ہریرہؓ سے کہ انہوں نے کہا فرمایا رسول اﷲﷺ نے، قسم ہے اس کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ البتہ قریب ہے کہ اترے گا تمہارے درمیان بیٹا مریم کا یعنی عیسیٰ علیہ السلام حاکم عادل ہوکر، پھر توڑ ڈالے گا صلیب کو اور مار ڈالے گا جنس سور کو یعنی حکم کرے گا اس کا اور موقوف کردے گا جزیہ لینا کافروں سے، یعنی سوائے اسلام کے جزیہ قبول نہ کرے گا اور ابل جائے گا مال یہاں تک کہ نہ قبول کرے گا اس کو کوئی یہاں تک کہ ہوگا ایک سجدہ بہتر دنیا ومافیہا سے پھر کہتے تھے ابو ہریرہؓ پڑھ لو تم اگر چاہو تم آیت: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ کو یعنی اور نہیں ہوگا اہل کتاب میں سے کوئی مگر البتہ وہ ایمان لائے گا عیسیٰ علیہ السلام پر آگے مرنے ان کے کہ یہ حدیث متفقہ علیہ ہے یعنی بخاری اور مسلم کا اس پر اتفاق