اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ سے لینے کا وہم بھی صحیح نہیں ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ قصہ مذکور ان دونوں فرقوں کے اعتقاد کے برخلاف ہے۔ واﷲ اعلم۔ دوسری آیت: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیٰمۃ یکون علیہم شہیدا‘‘ {نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر البتہ ایمان لائے گا عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے اور ہوگا وہ عیسیٰ گواہی دینے والا قیامت کے روز اوپر ان کے۔}
استدلال اس آیت سے اس طرح پر ہے کہ یہ آیت بعد آیت مذکور کے متصل بلا فاصلہ آئی ہے۔ اس آیت کی ضمیر قبل موتہ میں مفسرین کے دو قول آئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس ضمیر کو عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرتے ہیں۔ یعنی آگے موت عیسیٰ علیہ السلام کے کہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس ضمیر کو کتابی کی طرف پھیرتے ہیں۔
یعنی آگے مرنے اس کتابی کے کہتے ہیں۔ بہردو صورت ہمارا مطلب جو اثبات حیات عیسیٰ علیہ السلام ہے۔ ثابت ہوتا ہے۔ پہلی صورت میں یعنی ضمیر قبل موتہ کی عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرنے کی صورت میں مطلب ہمارا صاف قطعاً ویقیناً ثابت ہوجاتا ہے۔
کیونکہ تب معنی یہ ہوتے ہیں۔ نہیں کوئی اہل کتاب سے مگر ایمان لائے گا عیسیٰ علیہ السلام پر آگے موت ان کی کے۔ پس اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی مرے نہیں، زندہ ہیں۔
پھر آئندہ دنیا میں آئیں گے اس وقت کے سب اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔ تب عیسیٰ علیہ السلام وفات پائیں گے۔ یہی بات صحیح ہے۔ کیونکہ اس بات کی تائید کرنے والی بہت سی صحیح حدیثیں اور اقوال صحابہ وغیرہ ہم ہیں۔ چنانچہ تھوڑے ان سے قریب آئیں گے۔ دوسری صورت جو قبل موتہ کی ضمیر کو ہر فرد اہل کتاب کی طرف پھیریں تو اگر چہ اس پر کئی اشکالات وارد ہوتی ہیں۔ ازاں جملہ یہ کہ وہ ایمان مقبول ہے یا غیر مقبول۔ اگر غیر مقبول ہے تو وہ ایمان ہوا جو وقت میں دیکھنے موت کے ہوتا ہے۔
پس اس پر قبل کے لفظ کی دلالت متعین نہیں ہوسکتی۔ بسبب شامل رہنے لفظ قبل کے کل زمانۂ حیات پر اس کے بلکہ اس زمانہ کے واسطے عند موتہ یا حین موتہ یا وقت موتہ ہونا چاہئے اور اگر وہ ایمان مقبول ہے تو قبل کا لفظ بیکار ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ جو ایمان لاتا ہے۔ قبل موت کے ہی ایمان لانا ہے۔ پس قبل کا لفظ بے کار وغیر مفید رہتا ہے۔ یہ خلاف بلاغت وفصاحت ہے۔ سو اس کے اس طرح کا ایمان ہر کتابی سے غیر واقع ہے۔