اعادہ کیا انہوں نے اسی بات کا ان حواریوں پر پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی جوان اور کہا میں ہوں۔ تب عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تو وہی ہے۔ یعنی میرے ساتھ جنت میں رہنے والا پس ڈالی گئی اس پر شباہت عیسیٰ علیہ السلام کی اور اٹھائے گئے عیسیٰ علیہ السلام ایک روشندان سے گھر کے، طرف آسمان کے، کہا ابن عباسؓ نے اور آئے تلاش کرنے والے عیسیٰ علیہ السلام کے یہود سے، پس پکڑ لیا انہوں نے اسی شبیہ کو پس مار ڈالا انہوں نے اس کو پھر سولی پر چڑھایا۔ اس کو الحدیث کہا صاحب فتح البیان نے، ابن کثیر نے بعد لانے اس اثرابن عباسؓ کو اس لفظ سے ابن ابی حاتم کی اسناد سے جو حدثنا احمد بن سنان ثنا ابو معاویہ عن الاعمش عن المنہال بن عمرو عن سعید بن جبیر عن ابن عباسؓ ہے۔ کہا یہ اسناد صحیح ہے۔ ابن عباسؓ تک صاحب فتح البیان کہتے ہیں ابن کثیر نے سچ کہا کیونکہ رجال یعنی راوی اس حدیث کے سب کے سب رجال صحیح بخاری کے ہیں۔}
نسائی کی روایت ابن عباس سے اس طرح ہے: ’’ان رہطا من الیہود سبوہ وامہ فدعا علیہم فمسخہم اﷲ قردۃ وخنازیر فاجتمعت الیہود فقال لاصحابہ ایکم یرضی ان یلقی اﷲ شبہی فیقتل ویصلب ویدخل الجنۃ فقال رجل منہم انا فالقی اﷲ علیہ شبہ فقتل وصلب الحدیث‘‘
{ایک جماعت نے یہود کی گالیاں دیں عیسیٰ علیہ السلام کو اور ان کی ماں کو۔ پس عیسیٰ علیہ السلام نے بددعا کی ان پر، سو اﷲ نے اس جماعت کو مسخ کرکے بندر اور سور بنا دئیے۔ پس جمع ہوگئے یہود قتل کرنے پر عیسیٰ علیہ السلام کے، پس اللہ نے خبر دی عیسیٰ علیہ السلام کو کہ اٹھا لے وہ اس کو طرف آسمان کے اور پاک کر دے اس کو صحبت ناپاک سے یہود کی۔ پس کہا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے یاروں سے کون راضی ہوتا ہے۔ تم میں سے کہ ڈالی جائے اس پر شباہت میری پس وہ قتل کیا جائے اور سولی پر چڑھایا جائے اور داخل ہوجائے وہ جنت میں۔ پس ایک مرد نے ان میں سے کہا میں راضی ہوں پس اللہ تعالیٰ نے اس پر عیسیٰ علیہ السلام کی شباہت ڈالی پس وہ مارا گیا اور سولی پر چڑھایا گیا۔}
آخر حدیث تک نقل کیا اس کو مولوی عبید اللہ قاضی مدراس نے اپنے فتویٰ میں (یہ فتویٰ ’’فتویٰ ختم نبوت‘‘ میں شائع ہوگیا ہے۔ مرتب) اس اثر ابن عباسؓ سے صاف ظاہر ہوگیا کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر مارے جانے اور سولی دئیے جانے کے آسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔ اس آیت کا مطلب صاف کھل گیا اور یہ حدیث ابن عباسؓ کی حکم مرفوع حدیث کا رکھتی ہے۔ یعنی رسول اﷲﷺ سے سنی ہوئی بات نہ ہے۔ کیونکہ اس قصے میں رائے اور اجتہاد کو کچھ دخل نہیں اور اس قصے کو