ان کے یعنی اللہ نے کسی کو عیسیٰ علیہ السلام کا شبیہ بنا دیا تو اس کو انہوں نے مار ڈالا اور سولی دی اور مقرر وہ لوگ کہ جنہوں نے اختلاف کیا عیسیٰ علیہ السلام کے باب میں البتہ وہ شک میں ہیں۔ اس کی قتل سے (کیونکہ بعضوں نے کہا کہ یہی عیسیٰ ہے اور بعضوں نے کہا نہیں کیونکہ چہرہ مقتول کا چہرہ عیسیٰ کا ہے نہ جسد) اور نہیں واسطے ان کے قتل پر اس کے یقین مگر پیروی گمان کی اور نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو یقیناً بلکہ اوپر اٹھا لیا اللہ نے اس کو طرف اپنے (یعنی آسمان پر اٹھا لیا) اور ہے اللہ غالب حکمت والا۔}
یہ آیت دلالت کرتی ہے قطعی دلالت کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ باجسد آسمان پر اٹھائے گئے۔ کیونکہ جب اللہ نے آپ کے مارے جانے اور سولی پر چڑھائے جانے کی صاف نفی کی تو آپ کا مرنا ثابت نہ ہوا۔ زندہ رہنا ہی ثابت ہوا۔ پھر جب آپ کا اوپر کو اٹھائے جانا ثابت ہوا اور اس آیت سے قول وہب کہ اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو تین ساعت یا تین روز موت دیکر بعدہ زندہ کرکے اپنی طرف اٹھا لیا اور قول محمد بن اسحاق کہ سات ساعت تک موت دے کر پھر زندہ کرکے اپنی طرف اٹھا لیا۔
جیسا کہ یہ دونوں قول تفسیر بغوی اور تفسیر کبیر وغیرہما میں لائے گئے ہیں۔ رد ہوجاتے ہیں۔ شاید یہ ہردوقول نصاریٰ سے لئے گئے ہوں گے۔ اس بات پر کوئی آیت وحدیث دلالت نہیں کرتی ہے۔ پس مرزا قادیانی اور ان کے اتباع جو کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی رفع سے مراد آپ کو اوپر اٹھا لینے سے مراد آ پکی روح کا رفع مراد ہے۔ صاف غلط اور بڑی جہالت کی بات ہے۔
کیونکہ فقط روح کے رفع سے قتل اور سولی ہر دو ثابت رہ جاتی ہیں۔ اس لئے کہ رفع روح کا بعد مارے جانے کے ہوتا ہے اور سولی پر چڑھانا جسد کے ساتھ متعلق ہے۔ فقط روح کو اوپر اٹھا لینے سے سولی کی نفی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ خدائے تعالیٰ نے ان دونوں باتوں کی یعنی مارے جانے اور سولی دئیے جانے کی صاف نفی کردی اور مکرر نفی قتل کو بیان کیا اور لفظ یقینا سے اس کو مؤکد کردیا اور ساتھ اس کے یہود کے مکر پر اپنی مکر کا غلبہ اور اپنی حکمت اور پختہ کاری بھی بیان کردی تو یہ عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ باجسد آسمان پر اٹھائے جانے پر نص صریح ہونے سے دلیل قطعی ہوگئی۔
پس اس کے منکر پر اطلاق کفر کا بے شک درست ہوسکتا ہے۔ حافظ الحدیث قاضی عیاضؒ نے اپنی شفاء کے آخر فصل مقالات کفر میں لکھا ہے: ’’وکذالک وقع الاجماع علی