M
الحمدﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ امام الہادیین وعلیٰ آلہ واصحابہ افضل المہدیین۔ اما بعد!
دین دار، دین کے غم خوار، بھائیوں کو معلوم ہو کہ یہ آخر زمانہ ہے۔ اس میں تازہ تازہ فتنے دین میں برپا ہونا ضروری ہے۔ سو ان دنوں ان کا ظہور ہے۔ پس جس کو اپنا ایمان پیارا ہے اور اس کو بچانا منظور ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اعتقاد وعمل میں سلف کا تابع رہے اور ان کی ہی راہ پر چلے۔
اور ہر مکار کی بات پر فریفتہ نہ ہوجائے اور ہر بناوٹ پر شیفتہ نہ ر ہے۔ پرانا فتنہ اہل سنت میں ملاحدہ وجودیہ کی طرف سے تھا، سو تھا۔ علاوہ اس کے نیچریوں کی طرف سے شروع ہوا پھر اب قادیانیوں کی طرف سے خدا حافظ عوام کا، اب یہ فقیر عبدالقادر بن قاضی شیخ احمد عفی اللہ عنہا، مرزا غلام احمدقادیانی کا ردجو عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا قائل ہے اور اس باب میں اس نے کئی رسائل لکھے ہیں۔ شروع کرتا ہے اور اس کے دلائل کے جوابات بہت عمدہ طور پر بحولہ تعالیٰ وقوتہ لکھتا ہے۔
اور نام اس رسالہ کا ’’رد الشُبہات القادینیہ بالاحادیث والآیات القرآنیہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اب ہم زندہ رہنا عیسیٰ علیہ السلام کا اور نازل ہونا ان کا آسمان سے آخر زمانے میں واسطے قتل دجال کے ان ہردوباب میں گفتگو کرتے ہیں اور حیات اور نزول کو آپ کے، بدلائل آیات قرآن واحادیث صحیحہ رسول رحمان ثابت کرتے ہیں۔
بحولہ تعالیٰ وقوتہ ہم یہاں تین آیتوں سے قرآن مجید کی عدم ممات واثبات حیات عیسیٰ علیہ السلام کرتے ہیں۔ پہلی آیت جو بلاشبہ محکم اور نص صریح اس بات پر ہے۔ آیت: ’’وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالہم بہ من علم الاتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما (نسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘
{عذاب میں پکڑا ہم نے یہود کو یا لعنت کی ہم نے ان کو مذکور باتوں کے سبب سے اور بسبب کہنے ان کے کہ مقرر ہم نے مار ڈالا مسیح عیسیٰ بن مریم کو جو رسول، اﷲ کا ہے اور نہیں مار ڈالا انہوں نے اس کو یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو، اور نہ ہی سولی دی انہوں نے اس کو، لیکن شبیہ بنایا گیا واسطے