قادیانی نے سلطان محمد کی موت کی میعاد پہلے ڈھائی برس مقرر کی اور وہ میعاد ختم ہوگئی۔ تب اپنی حیات میں اس کی موت کے ہونے کو ضروری بتایا اور بسر تقدیر نہیں ہونے کے اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کیا۔ پھر جلد فیصلہ کرانے کے لئے اشتہار تکذیب دلوانے پر اس کی موت کے لئے خدا کی طرف سے جدید میعاد مقرر کرانے کا وعدہ کیا اور اس جدید میعاد میں اس کے نہیں مرنے پر بھی اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کیا۔ پھر اس کی تکذیب کا اقرار بھی کیا مگر نہ تو خدا کی طرف سے جدید میعاد مقرر کرائی اور نہ ان کی حیات میں اس کی موت آئی بلکہ خود اس کی حیات میں مر گئے اور وہ ہنوز زندہ موجود ہے۔
اب میں قادیانی مولوی کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ یہ ثابت کریں کہ حضرت یونس علیہ السلام نے پہلے معین میعاد مقرر کی تھی۔ جس طرح مرزا قادیانی نے کی۔ وہ پوری نہ ہوئی تو اپنی حیات کو میعاد ٹھہرایا اور غلط ہونے پر اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کیا۔ پھر فیصلہ کا یہ طریق بتایا کہ قوم دوبارہ تکذیب کرے اور جدید میعاد مقرر کی جائے گی اور اس جدید میعاد میں عذاب نہیں آنے پر بھی اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کیا۔ پھر قوم کے دوبارہ تکذیب کا اقرار کیا مگر نہ جدید میعاد مقرر کی اور نہ ان کی حیات میں قوم پر موعود عذاب آیا۔ پھر خود انتقال کرگئے اور قوم عذاب سے محفوظ رہ گئی۔ اگر اس طرح پر ثابت کردیں تو مجھ سے مبلغ سو روپے انعام لیں۔ ورنہ اس بات کا اقرار کریں کہ یہ پیشین گوئی حضرت یونس علیہ السلام کے قصہ کے ہم شکل نہیں ہے اور مرزا قادیانی کا اس کو ہم شکل کہنا محض غلط اور باطل بلکہ محض فریب اور دجل ہے۔
قادیانی مولوی نے لکھا ہے کہ فیصلہ آسمانی حصہ اوّل کے جواب میں علامہ ممدوح کے خطوط شائع کریں گے اور شہادت آسمانی کا بھی جواب لکھیں گے۔ اول کی نسبت گزارش ہے کہ جس قسم کے خطوط مرزا قادیانی کے پیش کئے گئے ہیں۔ اگر علامہ ممدوح کے اسی قسم کے خطوط آپ کے پاس ہیں تو بلا تکلف شائع کریں۔ ورنہ معمولی خطوط پر نکتہ چینی کرنے سے حصہ اول کا جواب نہیں ہوسکتا۔
اور دوم کی نسبت گزارش ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اس مضمون کو پیش نظر رکھ کر شہادت آسمانی کا جواب لکھیں۔ مجدد صاحب فرماتے ہیں: ’’درحدیث آمدہ است کہ اصحاب کہف اعوان حضرت مہدی علیہ السلام خواہند بودو حضرت