حرف شرط نہیں ہے اور اگر اس جملہ کا شرط ہونا مان لیں تو یہ شرط پوری نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس جملہ میں خطاب احمد بیگ کی خوش دامن کو ہے اور اس نے توبہ نہیں کی اور اس کے کسی دوسرے قرابت مند کے توبہ کرنے سے (اگر توبہ کرنا ثابت بھی ہوجائے۔) شرط پوری نہیں ہوسکتی اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ شرط پوری ہوگئی تو مشروط یعنی نکاح کا ظہور ہونا چاہئے۔ کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ: اذا وجد الشرط وجد المشروط۔مرزا قادیانی اس کا الٹا کہتے ہیں کہ جب ان لوگوں نے صادق آیا۔
قادیانی مولوی نے اس علمی اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیا اور جو جواب دیا ہے۔ سوال از آسمان وجواب از ریسمان کا مصداق ہے۔ مولوی صاحب اپنے رسالہ کے ص۴۸ میں لکھتے ہیں: ’’محمدی بیگم کا نکاح چونکہ اس کے شوہر کے مرنے پر موقوف تھا اور حضرت مسیح موعود کی وفات تک وہ شوخ اور بے باک اور مکذب نہ ہوا۔ اس لئے یہ نکاح مطابق پیشین گوئی کے فسخ ہوگیا۔‘‘
ناظرین! ذرا انصاف کے ساتھ غور کیجئے کہ اعتراض کیا ہے اور جواب کیا دیا جاتا ہے۔ اعتراض تو یہ ہے کہ توبی توبی والا جملہ شرط نہیں ہوسکتا ہے اور اگر شرط ہے تو یہ شرط پوری نہیں ہوئی اور اگر پوری ہوئی تو نکاح کا ظہور ہونا چاہئے۔ علمی قاعدہ سے اس کا جواب تو یہ تھا کہ عربی قاعدہ کی رو سے جملہ مذکورہ کا شرط ہونا ثابت کرتے پھر اس شرط کے پورا ہونے کا دکھلاتے پھر نکاح کا ظہور کرتے۔
مگر افسوس ہے کہ مولوی صاحب باوجود دعویٰ قابلیت کے اپنا علمی جوہر کچھ بھی نہیں دکھا سکے اور عوام کو فریب دینے کے لئے ایک مہمل جواب دے دیا جو از سر تا پا غلط ہے۔ اس لئے کہ محمدی بیگم کا نکاح اس کے شوہر کے مرنے پر ہرگز ہرگز موقوف نہ تھا۔ اسلامی شریعت میں طلاق اور خلع کی صورت بھی موجود ہے۔ اگر سلطان محمد احمد بیگ کی موت کی وجہ سے پیشین گوئی سے ڈر جاتا اور اس کو اپنی جان کا خوف ہوتا تو فطرتی تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے اپنی بی بی کو طلاق دے دیتا اور اس وقت وہ بلا تکلف مرزا قادیانی کے نکاح میں آسکتی تھی۔
یا اگر مرزا قادیانی کی کچھ بھی عظمت محمدی بیگم یا اس کے خاندان والوں کے دل میں ہوتی تو وہ خلع کراکے مرزا قادیانی کے نکاح میں چلی آتی جو حسب الہامات مرزا قادیانی بہت کچھ