النو کی ونسو ایام الفزع وعادو الی التکذیب والطغوی!
(انجام آتھم ص۲۲۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
میں دیکھتا ہوں کہ ان کو اپنی پہلی عادتوں کی طرف مائل ہوگئے ہیں اور ان کے دل سخت ہوگئے ہیں۔ جیسا کہ جاہلوں کی عادت ہے اور خوف کے دنوں کو بھول گئے اور پھر تکذیب اور سرکشی کی طرف عود کرگئے۔
اس تکذیب اور سرکشی کی اس قدرشہرت ہوئی کہ مرزا قادیانی کو اس کی خبر ہوگئی اور انہوں نے اس کو یہاں تک یقین کیا کہ اپنی کتاب میں لکھ کر شائع بھی کردیا اور اشتہار سے جو مقصود تھا حاصل ہوگیا۔ مگر مرزا قادیانی نے نہ تو خدا سے جدید میعاد مقرر کرائی اور نہ داماد احمد بیگ ان کی زندگی میں مرا۔ بلکہ خود مرزا قادیانی بھی اس کی زندگی میں مر گئے۔
قادیانی مولوی نے مرزا قادیانی کی عبارت کا جو صاف مطلب بیان کیا ہے۔ اس کے رو سے بھی مرزا قادیانی نہایت ہی صفائی کے ساتھ کاذب ثابت ہوگئے۔ فالحمد اﷲ علیٰ ذالک!
۳… محمدی بیگم کا مرزاقادیانی کے نکاح میں آنا۔ اس کے متعلق مرزا قادیانی کے متعدد اور تاکیدی الہامات ہیں۔ من جملہ ان کے ایک یہ ہے۔ کہ خدائے تعالیٰ اس لڑکی کے ہر ایک مانع کو دور کرنے کے بعد انجام کا راس عاجز کے نکاح میں لائے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۸)
ایک زمانہ دراز تک مرزا قادیانی کو اس نکاح ہونے کا یقین رہا۔ یہاں تک کہ جب عدالت میں سوال کیا گیا کہ آپ کو امید ہے کہ نکاح ہوگا؟ تو مرزا قادیانی نے جواب دیا کہ: ’’امید کیسی مجھ کو تو یقین کامل ہے۔ کیونکہ خدا کا کلام ہے۔‘‘ پھر جب مرزا قادیانی کو مایوسی ہوئی تو مرزا قادیانی نے حقیقت الوحی میں یہ لکھا کہ: ’’اس نکاح کے ظہور کے لئے جو آسمان پر پڑھا گیا خدا کی طرف سے ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ: ایتہا المرء ۃ توبی توبی فان البلاء علی عقبک۔ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کردیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۳۲، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)
علامہ ممدوح نے اس جواب پر متعدد اعتراضات مختلف پہلوئوں سے کئے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ یہ جملہ باعتبار عربی الفاظ اور ترکیب کے شرط نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس میں کوئی