کیونکہ یہ عبارت مرزا قادیانی کے دوسرے قول کے تین ہی سطر بعد ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کا لفظ اسم اشارہ مشار الیہ قریب کے لئے ہے۔ ہرگز ہرگز یہ کا اشارہ قول اول کی طرف جو بعید ہے نہیں ہوسکتا۔ پھر مرزا قادیانی یہ لکھتے ہیں۔
۳… ’’سو اگر جلدی کرنا ہے تو اٹھو اور اس کو بے باک اور مکذب بنائو اور تکذیب کا اشتہار دلوائو اور خدا کی قدرت کا تماشا دیکھو۔‘‘ (ایضاً حاشیہ)
اب مطلع صاف ہے کہ جلدی فیصلہ کرانے کے لئے اشتہار تکذیب وغیرہ کی ضرورت ہے اور جلدی نہیں کرنے کی صورت میں اشتہار تکذیب وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ پہلے قول کے رو سے مرزا قادیانی کی حیات کا انتظار کرنا ہوگا۔
مولوی صاحب اپنی کمال دیانت سے یا ذہانت سے اپنے رسالہ کے ص۴۱ میں لکھتے ہیں۔ ’’اس حاشیہ میں پہلی عبارت جس کو ابو احمد رحمانی صاحب نے نقل کیا ہے۔ اس کے بعد یہ عبارت ہے۔ جس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں وہ تکذیب کا اشتہار دے اور بے باکی ظاہر کرے۔ پھر اگر وہ حضرت مسیح موعود کے سامنے نہ مر جائے تو البتہ حضرت (معاذ اﷲ) جھوٹے ہوں گے۔ ‘‘
میں کہتا ہوں کہ یہ فقط قادیانی مولوی کی زبان کی صفائی ہے۔ مرزا قادیانی کی عبارت کا صاف مطلب وہ ہونا جو مولوی صاحب کہتے ہیں۔ سیاہ جھوٹ ہے۔ بلکہ صاف اور صحیح مطلب ان کی عبارت کا وہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔ کیونکہ اشتہار تکذیب وغیرہ جلدی فیصلہ کرانے کے لئے ہے۔ اس کو مرزا قادیانی کے اس قول کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کہ نفس پیشین گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبر م ہے۔ اس کی انتظار کرو۔
اور علی السبیل التنزل اگر ہم یہ مان لیں کہ مرزا قادیانی کی حیات میں داماد احمد بیگ کی موت واقع ہونے کے لئے اس کا بے باک ہونا اور اشتہار تکذیب دینا ضروری ہے۔ جب بھی مرزا قادیانی کاذب اور ہر ایک بد سے بدتر ہونے سے بچ نہیں سکتے ہیں۔ اس لئے کہ مرزا قادیانی کی حیات میں اس کا بے باک ہونا اور تکذیب کرنا خود مرزا قادیانی ہی کے کلام سے ثابت ہے۔ مرزا قادیانی انجام آتھم میں لکھتے ہیں:
انھم قد مالوا الی سیرہم الاولی وقد قست قلوبہم کما ہی عادۃ