جب آپ ان دو سوالوں پر محققانہ نظر ڈالیں گے تو پوری وضاحت سے ثابت ہوگا کہ یہ واقعہ تخریب عالم یعنی قیامت کے واقعات کی ایک کڑی ہے اور تخریب عالم کا ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو عالم کے تعمیری دور کے واقعات سے ملتا جلتا ہو۔ پس اگر تخریب عالم کے وہ سب واقعات جو تعمیری دنیا کے بعد کے واقعات سے مختلف ہونے کے باوجود قابل تصدیق ہیں تو پھر اس واقعہ کی تصدیق میں آپ کو تأمل کیوں ہے؟ ظاہر ہے کہ جب تمام مردوں کے زندہ ہو ہو کر ایک میدان میں جمع ہونے کا زمانہ قریب آرہا ہو تو اس سے ذرا قبل صرف ایک زندہ انسان کا آسمان سے زمین پر آجانا کون سی بڑی بات ہے۔ بلکہ اس طویل گمشدگی کے بعد یہ آسمانی نزول مجموعہ عالم انسانی کے جسمانی نشاۃ ثانیہ کے لئے ایک بدیہی اور محکم برہان ہے۔ اسی لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں ارشاد ہے۔ ’’وانہ لعلم للساعۃ (زخرف:۶۱)‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی ایک مجسم علامت ہیں۔
اس کے بعد جب آپ اس پر غور کریں گے کہ یہ پیش گوئی ہے کس شخصیت کے متعلق، وہ شخصیت کسی عام بشری سنت کے تحت کوئی بشر ہے یا ان سے کچھ الگ ہے تو آپ کو یہی ثابت ہوگا کہ وہ صرف عام انسانوں ہی سے نہیں بلکہ جملہ انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں بھی سب سے الگ اور سب سے ممتاز خلقت کا بشر ہے۔ جتنے انسان ہیں، وہ سب مذکور ومونث کی دو صنفوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسے انسان ہیں جن کی تخلیق صرف ایک صنف انسانی سے وجود میں آئی ہے۔ پھر اس میں تمثل جبرئیلی اور نفخۂ ملکی اور تکلم فی المہد کے واقعات اور بھی عجیب تر ہیں۔ ان کے معجزات دیکھئے تو وہ بھی کچھ نرالی شان رکھتے ہیں… ان کے گذشتہ دور حیات میں ملکیہ کا اتنا غلبہ ہے کہ کھانے پینے، رہنے سہنے، شادی ونکاح کا کوئی نظم ونسق ہی نہیں ملتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا وہ ان سب ضروریات سے منزہ ومبرا سچ مچ کے ایک فرشتہ ہیں۔ پھر جب ان کی ہجرت کا مرحلہ آتا ہے تو یہاں بھی ان کی شان نرالی نظر آتی ہے۔ یعنی ان کی ہجرت کسی خطۂ ارضی کی بجائے اس عالم کی طرف ہوتی ہے جو ملکوت اور ارواح کا مستقر ہے۔ غرض ان کی حیات کے جس گوشہ پر نظر ڈالئے وہ ملکوتیہ کا ایک مرقعہ نظر آتا ہے۔ یہاں قرآن کریم نے ان کو جو لقب عطاء فرمایا ہے وہ بھی سب سے ممتاز ہے اور اس نوع کا لقب ہے جس سے ان کی زندگی کی یہ سب خصوصیات اجتماعی طور پر بیک نظر سامنے آجاتی ہیں۔ یعنی روح اﷲ اور کلمتہ اﷲ اس روح کی آمد میں کوئی ظاہری واسطہ بھی نہ تھا اور جو واسطہ تھا وہ ایسا ہی تھا جس کے موجود ہونے سے عالم قدس کی طرف ان کی نسبت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔