انہوں نے پہلے تو محدث ہونے کا دعویٰ کیا۔ پھر مسیح موعود بنے۔ بعد ازاں امتی نبی کی اصطلاح ایجاد کی اور اس بات کو قطی طور پر بھول گئے کہ وہ پہلے اپنی کتابوں میں لکھ چکے ہیں کہ نبی امتی نہیں ہوسکتا اور امتی نبی نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ ازالہ اوہام میں کئی مقامات پر اس کی تصریح موجود ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’باوجود امتی ہونے کے کسی طرح رسول نہیں ہوسکتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۷۵، خزائن ج۳ ص۴۱۰)
لیکن جیسے کیسے ہوتا انہیں اپنا مطلب نکالنا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ’’امتی نبی‘‘ ہونے کا دعویٰ ان الفاظ میں کر دیا۔
’’بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر مجھے نبی کا خطاب دیا گیا۔ مگر اس طرح سے ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی… میں خداتعالیٰ کی تیئس برس کی متواتر وحی کو کیونکر رد کر سکتا ہوں۔ میں اس کی اس پاک وحی پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ ان تمام خدا کی وحیوں پر ایمان لاتا ہوں جو مجھ سے پہلے ہو چکی ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۵۰ ، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳،۱۵۴)
مرزاقادیانی کی آنکھوں کے سامنے سے حجابات اٹھتے گئے اور نئی نئی راہیں ان پر منکشف ہوتی گئیں یا تو وحی کا سلسلہ بند کرنے پر زور دے رہے تھے یا پھر وقت آگیا کہ انہیں کہنا پڑا: ’’وہ مذہب مردار ہے جس میں ہمیشہ کے لئے یقینی وحی کا سلسلہ جاری نہیں۔‘‘
(نزول المسیح ص۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۶۹)
’’وہ دین لعنتی اور قابل نفرت ہے جو یہ سکھلاتا ہے کہ صرف چند منقولی باتوں پر انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحی الٰہی آگے نہیں پیچھے رہ گئی ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۳۹ حصہ پنجم، خزائن ج۲۱ ص۳۰۶)
’’خداتعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے یقینی اور قطعی وحی کا قیامت کے دن تک اس امت کو وعدہ دیاگیا ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۱۱۰، خزائن ج۲۲ ص۴۸۸)
مرزاقادیانی نے ادھر نبی کا امتی ہونا مان لیا۔ ادھر وحی کو تاقیامت جاری کرادیا۔ پس پھر کون سی رکاوٹ تھی ترقی کرتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ وہ ظلی اور بروزی کی آڑ لیتے رہے۔ تااینکہ وہ وقت آگیا کہ انہوں نے واشگاف لفظوں میں اعلان کر دیا۔
’’سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۳۱)