منکر نبوت بڑا مجرم ہے اور جب اس کے لئے کوئی وعید کر دی گئی تک جب تو وہ مجرم ہے یعنی ایمان نہیں لایا اس سے وہ وعید نہیں ٹل سکتی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اﷲﷺ نے امیہ بن خلف کو مارے جانے کی پیشین گوئی کی تھی اور اس کی وجہ سے وہ نہایت خوف زدہ ہوگیا تھا۔ چنانچہ بخاری کے یہ الفاظ ہیں۔ ’’ففزع لذلک امیہ فزعاً شدیداً‘‘ مگر اس کی وجہ سے وعید نہیں ٹلی اور پوری ہوکر رہی۔ مولوی صاحب نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
مخالفین کے اعتراضات سے عاجز آکر مرزا قادیانی نے (انجام آتھم ص۳۱، خزائن ج۱۱ ص۳۱) میں پہلے یہ لکھا کہ:
۱… ’’میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشین گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم ہے۔ اس کی انتظار کرو اور اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشین گوئی پوری نہ ہوگی اور میری موت آجائے گی اور اگر میں سچا ہوں تو خدائے تعالیٰ ضرور اس کو بھی ایسا ہی پوری کرے گا جیسا کہ احمد بیگ اور آتھم کی پیشین گوئی پوری ہوئی۔ اصل مدعا تو نفس مفہوم ہے اور وقتوں میں تو کبھی استعارات کو بھی دخل ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ بائیبل کی بعض پیشین گوئیوں میں دنوں کے سال بنائے گئے جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے۔ اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘
اس قول میں مرزاقادیانی نے داماد احمد بیگ کی موت کا اپنی حیات میں ہونا ضروری بتایا ہے اور اس میں کوئی شرط نہیں لگائی ہے۔ بلکہ یہ کہہ کر کہ یہ تقدیر مبرم ہے جو بات خدا کی طرف سے ٹھہر چکی ہے۔ اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ شرط کی نفی کردی ہے۔ پھر یہ لکھا۔
۲… ’’فیصلہ تو آسان ہے۔ احمد بیگ کے داماد سلطان محمد کو کہوکہ تکذیب کا اشتہار دے اور اس کے بعد جو میعاد خدائے تعالیٰ مقرر کرے۔ اگر اس سے اس کی موت تجاوز کرے تو میں جھوٹا ہوں۔‘‘ (انجام آتھم ص۳۲، خزائن ج۱۱ ص۳۲)
اس قول میں مرزا قادیانی اشتہار تکذیب دلوانے پر خدا کی طرف سے ایک جدید میعاد مقرر کرنے کا کووعدہ کرتے ہیں اور اس جدید میعاد سے اس کی موت کے تجاوز کرنے پر بھی اپنے کو جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ اسی دوسرے قول کے بعد مرزا قادیانی یہ بھی لکھتے ہیں۔ ’’اور ضرور ہے کہ یہ وعید کی موت اس سے تھمی رہے۔ جب تک وہ گھڑی آجائے کہ اس کو بے باک کردے۔‘‘ (صفحہ ایضاً) ادنیٰ اردو دان بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ وعید کی موت کا اشارہ اس وعیدی موت کی طرف ہے جو جدید میعاد مقرر کرنے پر موقوف ہو۔