عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ سے چند اقتباسات ذیل میں درج کرتا ہوں۔ جس سے آیت کے صحیح مطلب سمجھنے میں ناظرین کو سہولت ہوگی اور مولوی صاحب کے غلط بیانات کی قلعی بھی کھل جائے گی۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں:
۱… ’’ولو تقول علینا‘‘ یعنی اگر بفرض محال بربستہ بگوید آں رسول برما بقوت فصاحت وبلاغت خود بعض الاقاویل یعنی بعضے از سخنان کے ابعاض آیات باشند زیر کہ اگر جمیع اقاویل۔ رایا آیات تامہ طویلہ را برمی نسبت اور ادر آنقدر فصیحا وبلغا معارضہ کردہ خفیف وملزم می ساختند لا خذنا منہ بالیمین۔
البتہ فی الفور ’’اورا ہلاک کنیم بایں طریقہ کہ بگیرم ازوے دست راست اورا تم لقطعنا منہ الوتین‘‘ یعنی ’’باز جبریم بشیبر بررگ دل اورا کہ حیات او بہمان رگ است واور افرصت ندہمo واین طریق تصویر حال واجب القتلیٰ است کہ بادشاہان بحضور خود اور ا بسیاست میر سانند وجلاد راحکم میفر مایند کہ او ابکشد۔‘‘
۲… دریں جاسو الے است صعب وآن آنست کہ اگر ایں شرط وجزادرست باشد وملازمت بین المقدم والتالی کلیۃً صادق باشد لازم آید کہ ہچکس بعد از افتراء بر خدازندہ نماند حالانکہ مفتریان بسیار مثل مسیلمہ کذاب واسود عنسی ودیگر متنبیان گزشتہ اند کہ طوما رطومار افترا آت برخدا بستہ اندوہر گز ایں مواخذہ برآنہا جاری نشدہ۔
جوابش آنست کہ ضمیر تقول راجع برسول است نہ بہر فرد انسانی واگر بالفرض المحال رسول افتراء نما ید اورا این عقوبت عاجلہ لازم الوقوع است زیرا کہ تصدیق او بمعجزات واقع شدہ است پس اورا اگر تعجیل در عقوبت نکنند تلبسے لازم آید کہ لا یمکن رفعہ وآں منافی حکمت است بخلاف غیر رسول کہ بدون تصدیق معجزہ کلام او خرافاتے پیش نیست واضلائے جائے التباس واشتباہ نے آرے اورا تصدیق بمعجزہ از محالات است انتہی۔