۳… بالجملہ اگر رسول مصدق بالمعجزات ایں قسم افتراء نماید البتہ بایں عقبوت گرفتار شود انتہی
’’ولو تقول علینا یعنی اگر بفرض محال وہ رسول اپنی فصاحت وبلاغت کی قوت سے ہم پر افتراء کرے۔ بعض الاقاویل یعنی باتیں جو آیات کے ٹکڑے ہوں (بعض باتیں) اس لئے کہا کہ اگر کل باتیں یا چند پوری اور طویل آیتیں افتراء کرنا تو اس قدر ہیں۔ فصحاً وبلغاء معارضہ کرکے اس کو خفیف اور ملزم کردیتے۔ لا خذنا منہ بالیمین یعنی البتہ فی الفور ہم اسکو ہلاک کردیتے۔ اس طریقہ پر کہ اس کا داہنا ہاتھ پکڑتے۔ ’’ثم لقطعنا منہ الوتین‘‘ یعنی پھر کاٹ دیتے تلوار سے اس کے دل کی رگ کو اس لئے کہ اس رگ سے زندگی ہے اور اس کو فرصت نہ دیتے اور یہ طریقہ اس واجب القتل کے حال کی تصویر ہے۔ جس کو سلاطین اپنے سامنے سزا دیتے ہیں اور جلاد کو حکم کرتے ہیں کہ اس کو مار ڈالے۔‘‘
۲… ’’یہاں پر ایک سخت سوال ہے کہ اگر یہ شرط وجزاء درست ہے اور مقدم وتالی کے درمیان ملازمت پوری طرح سے صادق ہے۔ تو لازم آتا ہے کہ کوئی شخص خدا پر افتراء کرنے کے بعد زندہ نہ رہے۔ حالانکہ بہت سے مفتری مثل مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی اور دوسرے جھوٹے مدعیان نبوت گزرے ہیں۔ جنہوں نے دفتر کا دفتر خدا پر افتراء کیا ہے اور یہ مؤاخذہ ان پر جاری نہیں ہوا۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تقول کی ضمیر (سچے) رسول کی طرف راجع ہے۔ ہر فرد انسان کے طرف نہیں ہے۔ یعنی اگر بفرض محال (سچا) رسول افتراء کرے تو اس کے لئے اس جلد سزا کا واقع ہونا لازمی ہے۔ اس لئے کہ اس کی تصدیق معجزات سے ہوچکی ہے۔ اگر اس کی سزا میں جلدی نہ کریں تو ایسا شبہ لازم آئے گا جس کا دور کرنا ناممکن ہے اور یہ بات حکمت کے منافی ہے۔ بخلاف غیر رسول کے۔ (یعنی اگر جھوٹا رسول افتراء کرے تو اس کے لئے یہ سزا نہیں ہے اس لئے کہ اس کی تصدیق معجزہ سے نہیں ہوئی ہے) اور بغیر تصدیق معجزہ کے اس کا کلام محض خرافات سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا اور اس کے کلام (کے افتراء ہونے) میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں اس کی تصدیق معجزہ سے محال ہے۔‘‘
۳… ’’حاصل کلام یہ ہے کہ جس رسول کی تصدیق معجز ات سے ہوچکی ہے۔ (سچا رسول) اگر اس قسم کا افتراء کرے۔ (بعض باتیں اپنی طرف سے بنا کر اس کو خدا کا کلام کہے۔) تو البتہ اس