کیا ہے کہ جس طرح کا جلد ہلاک ہونا آیت کا مدلول ہے۔ اس طرح پر مسیلمہ اسود عنسی، عمرو بن لحی کی ہلاکت ہوئی۔
۳… اور اگر مان لیں کہ تمام قسم کے مفتریوں کو شامل ہے تو جو دعویٰ حضرت مسیح موعود نے کیا ہے کہ اس خاص قسم کا مفتری جلد ہلاک ہوجاتا ہے۔ اس کے خلاف کون لفظ ہے۔ (ص۱۲۱)
اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں نزول وحی کے جھوٹے مدعیوں اور دیگر اقسام کے مفتریوں سب کی سزا یکساں بیان کی گئی ہے اور چونکہ جلد ہلاک ہونا دیگر اقسام کے مفتریوں کی سزا نہ تو قرآن مجید اور حدیث شریف سے ثابت ہے اور نہ واقعات ومشاہدات سے اس لئے یہ سزا (جلد ہلاک ہونا) جھوٹے مدعیان وحی کی بھی نہیں ہوسکتی ہے۔
بلکہ ایک دوسری آیت سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مفتریوں کو دنیا میں مہلت دی جاتی ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ: ’’ان الذین یفترون علی اﷲ الکذب لا یفلحون متاع قلیل ولہم عذاب الیم (سورہ نحل پارہ۱۴ رکوع۲۱)‘‘ {بے شک جو اﷲ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں۔ فلاح نہیں پاتے ہیں۔ (ان کے لئے ) تھوڑا سا (دنیاوی) فائدہ ہے۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ (آخرت میں) }
۴… پھر آیت میں کونسا لفظ ہے۔ جس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے قبل وہ عذاب میں مبتلا نہیں ہوئے۔‘‘ (ص۱۲۱)
اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک آیت میں ایسا لفظ موجود ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے قبل عذاب نہیں ہوا۔ لفظ تو بہت صاف ہے۔ مگر بحکم۔ ’’علی ابصارہم غشاوۃ‘‘ اگر کسی کو معلوم نہ ہو تو دوسرے پر کیا الزام ہے۔
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
تعجب تو یہ ہے کہ الیوم تجزون کو خود نقل بھی کرتے ہیں اور اتنا نہیں سمجھتے ہیں کہ اس جملہ میں مفعول پر مقدم ہے اور مفعول کا فعل پر مقدم ہونا تخصیص پر دلالت کرتا ہے۔ جس سے صاف ثابت ہے کہ ا سکے قبل عذاب نہیں ہوا۔ کیا عربی کی مختصرات میں یہ نظر سے نہیں گزرا ہے۔ کہ یوم الجمعۃ صمیت سے تخصیص سمجھی جاتی ہے۔ اب ناظرین! انصاف کریں کہ کس کی علمی کوتاہی ثابت ہوئی۔ علامہ ممدوح کی یا خود قادیانی مولوی کی؟ اب میں مذکورہ بالا آیت کے متعلق تفسیر فتح العزیز مصنفہ مولانا شاہ عبدالعزیز