من افتریٰ علی اﷲ کذبا فی ذالک الزمان وبعدہ لانہ لا یمنع خصوص السبب من عموم الحکم (ص۱۲۱)‘‘ ترجمہ…’’ اہل علم نے کہا کہ بے شک اس آیت کے حکم میں کل وہ لوگ جو خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں اس زمانہ میں اور بعد اس کے سب داخل ہیں اس لئے کہ خصوص سبب عموم حکم کو منع نہیں کرتا۔ ‘‘
پھر تفسیر بیضادی اور جلالین سے شان نزول نقل کر نے کا حجم رسالہ بڑھانے کے سوا اور کیا فائدہ ہے۔ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ: ’’یہ آیت مسیلمہ اسود عنسی، سجاح اور ایسے ہی لوگوں کے حق میں وارد ہوئی ہے۔ اس لئے کہ مسیلمہ وغیرہ کے ایسے وہی لوگ کہلا سکتے ہیں۔ جو جھوٹے مدعیان ہوں حالانکہ اس آیت کے شان نزول میں ان لوگوں کو بھی لکھا ہے۔ جو اپنی طرف سے شرعی احکام بنایا کرتے ہیں۔ گو مدعی نبوت نہ ہوں بیضادی میں مسیلمہ اسود عنسی کی مثال دینے کے بعد یہ بھی لکھا ہے۔ ’’او اختلق احکاماً کعمر وبن لحی ومتابعتہ‘‘ ترجمہ… ’’یا بنائے احکام جیسے عمروبن لحی اور اسکے متابعت کرنے والے۔‘‘
پھر آگے چل کر ’’بما کنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق‘‘ کے متعلق لکھا ہے۔
’’کادعاء الولد والشریک لہ ودعوی النبوۃ والوحی کاذبا‘‘ ترجمہ… ’’یعنی خدا پر غیر حق کہنے والے وہ سب لوگ ہیں جو خدا کے لئے بیٹا یا شریک ٹھہرائیں۔ یا جھوٹی نبوت ووحی کا دعویٰ کریں۔‘‘
چونکہ اس عبارت سے یہ باث ثابت ہوتا ہے کہ نصاریٰ مشرکین جھوٹے مدعیان نبوت۔ اپنے جی سے شرعی احکام بنانے والے سب کی سزا ایک ساتھ بیان کی گئی ہے اور اس سے مرزا قادیانی کے دعوے اس خاص قسم کے مفتری کے بارے میں جو ان کا ہیرو ہے۔ خاک میں مل جاتا ہے۔ اس لئے قادیانی مولوی نے اس عبارت کو نظر انداز کردیا۔ یہ ہے قادیانی مولوی کی دیانتداری۔
۲… اور میرے ناظرین جب اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں کہ آیت کے شان نزول والے کس قدر جلد ہلاک ہوئے تو ہم کو اس معاملہ میں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (ص۱۲۱)
اس کا جواب یہ ہے کہ مولوی صاحب کے ناظرین شاید واقف ہوئے ہوں یا مولوی صاحب کا چہرہ دیکھ کر واقف ہو جانے کا اقرار کرلیں۔ مگر مولوی صاحب کی کتاب کے ناظرین ہر گز واقف نہیں ہوئے ہیں۔ اس لئے کہ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ میں کہیں یہ ثابت نہیں کیا