عذاب الہون بما کنتم تقولون علی اﷲ غیر الحق وکنتم عن اٰیتہ تستکبرون‘‘
{ اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے۔جس نے خدا پر جھوٹ باندھا یا یہ کہا مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں آئی یا کوئی اپنے کمال کے غرہ پر یہ کہے کہ جیسی کتاب رسول پر اتری ہے۔ ہم بھی ایسی کتاب بنا سکتے ہیں۔ (اپنی زندگی میں جو چاہیں کہتے رہیں) اے مخاطب اگر تو ان ظالموں کا حال مرتے وقت دیکھے کہ موت کی کیسی سختی ان پر ہوگی اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوں گے۔ }
اور یہ کہتے ہوں گے کہ اپنی جانوں کو نکالو۔ (اب تک تو تم نے چین کیا یا جس طرح رہے۔ ) مگر آج وہ دن ہے کہ تمہارے جھوٹ کی سزا میں تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا تم وہی ہو کہ خدا کی نشانیوں کو حقیر سمجھتے تھے اور اپنے آپ کو بڑا خیال کرتے تھے۔
اس آیت کے متعلق علامہ ابو احمد رحمانی نے فیصلہ آسمانی میں ص۵۰ لغایت ص۵۳ تک نہایت ہی تفصیل کردی ہے اور یہ ثابت کردکھایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مشرکوں کو۔ اہل کتاب کو۔ الہام ووحی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کو۔ کلام الٰہی کے نہماننے والوں کو۔ سب کو ایک طرح ظالموں میں شمار کرکے ان کی حالت بیان کی ہے۔
قادیانی مولوی اس کے جواب میں چند باتیں پیش کرتے ہیں۔
۱… اس آیت کے شان نزول میں لکھا ہے کہ مسیلمہ، اسود عنسی، سجاح اور ایسی ہی لوگوں کے حق میں وارد ہوئی ہے۔ (ص۱۲۰)
اس کا جواب یہ ہے کہ قادیانی مولوی اتقان سے سے یہ قاعدہ نقل کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ:
’’ان الا یہ تنزل فی الرجل ثم تکون عامۃ (ص۱۴۵) ‘‘ترجمہ… ’’بے شک آیت ایک شخص خاص کے بارے میں نازل ہوتی ہو پھر عام ہوتی ہے۔‘‘
پھر اس آیت یا دوسری پیش کردہ آیتوں کے جواب میں کس منہ سے شان نزول پیش کرتے ہیں؟ کیا اتقان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ قاعدہ صرف آیت کریمہ لو تقول علینا کے عموم ثابت کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور آیتوں کے لئے نہیں ہے۔ علاوہ اس کے اس آیت کے متعلق فتح البیان سے خود ہی نقل کرتے ہیں: ’’قال اہل العلم قد دخل فی حکم ہذہ الایۃ کل