میرے پر اس کی وحی نازل ہوئی ہے۔ حالانکہ کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔‘‘ ص۹۹ القا ربانی
مرزاقادیانی یا قادیانی مولوی کسی دوسری آیت یا صحیح حدیث تفسیر یہ ثابت نہیں کرسکے کہ یہ آیت اسی خاص قسم کی مفتری کے ساتھ خاص ہے۔ جو مدعی نبو ت بھی ہو۔
پس مولوی صاحب ہی کے دعویٰ عموم کے رو سے یہ آیت ہر ایک ایسے مفتری کو شامل ہوگی جو تقول علی اﷲ کا مصداق ہو اور تقول کے معنی خود مولوی صاحب بیضادی سے نقل کرتے ہیں:
’’سمی الا فتراء تقولا‘‘ یعنی افتراء تقول کے نام سے موسوم ہے۔‘‘ پس تقول علینا کا مطلب یہ ہوا کہ افتریٰ علینا آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص افترا کرے ہم پر تو ہم اس کو فوراً ہلاک کردیں گے۔
اب قادیانی مولوی پر لازم ہے کہ قرآن مجید میں جن جن شخصوں کو مفتری کہا گیا ہے۔ سب کا فی الفور اور جلد ہلاک ہونا ثابت کریں۔ اگر سب مفتریوں کا جلد ہلاک ہونا ثابت نہ کرسکیں تو ان مفتریوں کا ثبوت دیں۔ جو مدعی نبوت ہوئے ہوں۔ صالح بن طریف کی مدت نبوت میں کلام کرنے کی اب ضرورت نہ رہی۔ اس کا اور مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کا فی الفور ہلاک ہونا ثابت کریں۔
میں ڈنکے چوٹ کہتا ہوں کہ مولوی صاحب کیا ان کی جماعت کے سارے علماء مع خلیفہ نور الدین اس بات کو ہرگز ہرگز ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔ اس تقریر سے آفتاب نے نیمروز کے طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ آیت عام نہیں ہوسکتی۔ بلکہ آنحضرتﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ یا سچے رسولوں کے ساتھ۔
اور یہ کہنا کہ ’’دنیا میں صدہا دوسرے لوگ وہی گناہ کریں تو خدا کو خبر بھی نہ ہو۔ مگر محمد رسول اﷲﷺ ایسا گناہ خدانخواستہ کریں تو ہلاک کردیے جائیں۔‘‘ القاء ربانی ۱۲۳ عامیانہ استعجاب اور خدائے بزرگ کی شان میں گستاخانہ کلام ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو سب کی خبر ہے اور خوب خبر ہے اور اس نے اپنی مقدس کتاب میں جو جوامع الکلم ہے۔ ایسے مفتریوں کی سزا صاف لفظوں میں بیان کردی ہے۔
قال اﷲ تعالیٰ: ’’ومن اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ کذبا او قال اوحی الیّ ولم یوح الیہ شی ئٍ ومن قال سا نزل مثل ما انزل اﷲ ولو تریٰ اذا الظالمون فی غمرات الموت والملائکۃ باسطوا ایدیہم اخرجوا انفسکم۔ الیوم تجزون