ترجمہ… ’’لیکن ثابت باقتضاء النص وہ چیز ہے کہ نص عمل نہیں کرے مگر اس شرط کے ساتھ وہ چیز نص پر مقدم ہو۔‘‘
اور یہ ظاہر ہے کہ زیر بحث آیت میں ۲۳ برس کی مدت کسی طرح نص پر مقدم نہیں ہوسکتی۔ پس یہ کہنا کہ ۲۳ برس کی مدت باقتضاء النص ثابت ہے محض غلط ہے۔
ناظرین! ۲۳ برس کی مدت کا معیار صداقت ہونا تو باطل ہوچکا اور اسی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ آنحضرتﷺ کا دعویٰ وحی کے بعد تھوڑی مدت بھی سلامت باکرامت رہنا آپ کی صداقت کے اثبات کے لئے کافی ہے ۲۳ برس کی مدت کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اب رہی یہ بات کہ زیر بحث آیت کس کے حق میں ہے؟ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ تقول کی ضمیر کا مرجع رسول ہے۔ جو ابتدائے آیت ’’انہ لقو ل رسول کریم‘‘ میں مذکور ہے اور یہاں پر رسول سے یا جبرائیل مراد ہیں یا آنحضرتﷺ۔ تفسیر بیضادوی فتح البیان۔ خازن، کبیر وغیرہ میں رسول کے متعلق لکھا ہے: ’’ہو محمد او جبرئیل علیہما السلام‘‘
ترجمہ…’’ رسول سے مراد محمدﷺ یا جبرائیل علیہما السلام ہیں۔ اگر جبرائیل مراد لئے جائیں۔ تو یہ آیت ما نحن فیہ سے خارج ہو جاتی ہے اور مرزاقادیانی کا استدلال سرے سے ہوا ہوجاتا ہے۔
اور اگر آنحضرتﷺ مراد لئے جائیں جب بھی مرزاقادیانی کا استدلال غلط ہوجاتا ہے۔ مگر مولوی صاحب تفسیر اتقان سے محمد بن کعب کا یہ قول نقل کرکے :
’’ان الایۃ تنزل فی الرجل ثم تکون عامۃ (القاء ربانی ص۱۴۵ )‘‘
’’بے شک آیت ایک شخص خاص کے بارے میں نازل ہوتی ہے پھر عام ہوتی ہے۔‘‘
اس آیت کو آنحضرت ﷺ کے ساتھ خاص نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ عام کرنا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے عموم کو تسلیم بھی کرلیں تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ آیت آنحضرتﷺ کے ساتھ خاص نہیں رہے گی۔ بلکہ آپ کے سوا اور رسولوں کو بھی شامل ہوگی۔ یہ مطلب تو کسی طرح نہیں ہوسکتا کہ رسول اور غیر رسول دونوں کو شامل ہو گی اور اگر اس کو بھی مان لیں کہ رسول اور غیررسول دونوں کو شامل ہے۔
جب بھی یہ آیت اس مفتری کے ساتھ خاص نہ ہوگی۔ جو مرزاقادیانی کا ہیرو ہے۔ یعنی جو ’’کوئی شخص عمداً اپنی طرف سے بعض کلمات تراش کر یا ایک کتاب بنا کر پھر یہ دعویٰ کرے کہ یہ باتیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس نے مجھے الہام کیا ہے اور ان باتوں کے بارے میں