میں آئے تاکہ مسلمانوں میں ایک نمایاں شخصیت پیدا ہوجائے۔ چنانچہ مسلمان عزت کرنے لگے پھر مرزا قادیانی کا جب رنگ جما تو ولی بن گئے اور کچھ کچھ الہام ہونے لگے پھر مجدد بن گئے۔ یہاں تک کہ مسیح موعود مہدی ہونے کے مدعی ہوئے اور اس دوران میں جب مرزا قادیانی کی ایک جماعت تیار ہوگئی اور کچھ اعتبار ان پر کافی ہوگیا تو نبوت کا اعلان کردیا۔
اس صورت میں مرزا قادیانی کا نہ تو جاہل ہونا لازم آتا ہے۔ نہ انکار نبوت۔ بلکہ ایک بہت بڑے مدبر ہونے کا ثبوت ہوتا ہے اور میرے خیال میں جس کو خدا کی طرف سے نبوت نہ ملے بلکہ خود نبی بننا چاہے اس کو ایسی ہی تدبیریں پالیسیاں اختیار کرنا ضروری ہے۔
اس کی مثال یوں ہوسکتی ہے کہ ایک شخص نے چاہا کہ فلاں شخص کی دولت پر قبضہ کرنا چاہئے تو اس نے اس سے جان پہچان پیدا کی۔ پھر دور وپیہ صبح کو قرض لیا شام کو دے آیا۔ دوسرے روز چار لے آیا تیسرے دن دے آیا اور برابر شکوک رفع کرنے کے لئے کہتا رہا کہ میں چور نہیں ہوں، کوئی ڈاکو نہیں ہوں۔ لعنت ہے اس پر جو بدعہدی کرے۔ اس طرح ایر پھیر کرکے اپنا اعتبار پیدا کرلیا۔ پھر ۱۹۰۱ء میں پچاس ساٹھ ہزار روپیہ لے آیا اور بیٹھ رہا۔ جب مانگنے کو آئے تو گالیاں سنا دیں کہ تو بے ایمان ہے ایسا ویسا ہے۔
(اخبار الفضل۲۶؍نومبر۱۹۱۴ئ) ’’ہم جیسے خدا تعالیٰ کی دوسری وحیوں میں حضرت اسماعیل، حضرت عیسیٰ، حضرت ادریس علیہم السلام کو نبی پڑھتے ہیں ویسے ہی خدا کی آخری وحی میں مسیح موعود (مرزا قادیانی) کو بھی یا نبی اﷲ کے خطاب سے مخاطب دیکھتے ہیں اور اس نبی کے ساتھ کوئی لغوی یا ظلی یا جزوی کا لفظ نہیں پڑھتے کہ اپنے آپ کو خود بخود ایک مجرم فرض کر کے اپنی بریت کا ثبوت ہم دیتے ہیں۔ ایسا ہی بلکہ اس سے بڑھ کر کیونکہ ہم چشم دید گواہ ہیں۔ مسیح موعود کی نبوت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔‘‘
یعنی مرزا قادیانی کو نبی کہہ کر پھر ظلی، بروزی، مجازی وغیرہ عنوانات سے تاویل کرنا گویا جرم کرکے بری کرنے کا طریقہ ہے۔ اگر یہی ہے تو مرزا قادیانی نے جہاں جہاں کہا کہ میں ظلی ہوں، بروزی ہوں، مجازی ہوں سب غلط وبے کار ہوا اور خود مجرم بن کر ان تاویلوں سے اپنے آپ کو شریعت کی زد سے بری کرتے رہے۔ یہی تو ہم بھی پہلے سے چیخ رہے ہیں کہ مرزا قادیانی کی یہ تاویلیں صرف مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ہیں۔ ورنہ وہ حقیقی نبوت کے مدعی ہیں۔ بہتر ہوا مرزائیوں نے ظلی، مجازی اتنی نبوتوں کا جھگڑا ہی دور کردیا اور ہمارے لئے بھی میدان صاف ہوگیا۔