ہونے کا اعلان کیا اور جس شخص نے آپ کے نبی ہونے سے انکار کیا تھا اس کو ڈانٹا کہ جب ہم نبی ہیں تو تم نے کیوں ہماری نبوت سے انکار کیا۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص۱۲۴) بار بار کی وحی نے آپ کی توجہ کو اس طرح پھیر دیا کہ تیئس سال سے جو مجھ کو نبی کہا جارہا ہے تو یہ محدث کا دوسرا نام نہیں بلکہ اس سے نبی ہی مراد ہے اور یہ زمانہ تریاق القلوب کے بعد کا زمانہ تھا اور اس عقیدے کے بدلنے کا پہلا ثبوت اشتہار (ایک غلطی کا ازالہ، خزائن ج۱۸) سے معلوم ہوتا ہے جو پہلا تحریری ثبوت ہے۔
(ص۱ اور چونکہ ایک غلطی کا ازالہ ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا ہے) ’’جس میں آپ نے (مرزا قادیانی) اپنی نبوت کا اعلان بڑے زور سے کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں آپ نے اپنے عقیدہ میں تبدیلی کی ہے۔ ‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱، خزائن ج۱۸ ص۲۰۷)
خلیفہ قادیان کے اس تخیل پر لاہوری جماعت نے ایک تنقید کی ہے جو ہدیہ ناظرین ہے:
(اخبار پیغام صلح۲۷؍اپریل ۱۹۳۴ئ) ’’مگر افسوس ہے کہ جناب میاں صاحب کے اس اعلان کے مطابق حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی یہ کم علمی اور نادانی ایسی نادانی کے ذیل میں آتی ہے جسے توبہ توبہ نقل کفر کفر نبا شد نعوذ باﷲ، جہل مرکب کہتے ہیں کہ باوجود اس بات کے کہ آپ نبی کی تعریف تو نہ جانتے تھے مگر حالت یہ تھی کہ جہاں کسی نے آپ کی طرف دعاوی نبوت منسوب کیا اور آپ لگے مدعی نبوت پر لعنتیں کرنے۔ ‘‘
جو شخص ایک بات کو نہیں جانتا اور اس کے علم پر اس قدر اصرار کرے کے لعنتوں اور مباہلوں پر اتر آئے۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں جہل مرکب کا وارث کون ہوسکتا ہے۔ خود نبی ہیں اور خیر سے پتہ نہیں کہ میں نبی ہوں اور باوجود اس لاعلمی اور جہل کے آپ مدعی نبوت پر یا دوسرے لفظوں میں خود اپنے آپ پر لعنتیں بھیجتے رہے۔ ذرا تامل کرتے۔
یہ بھونڈی اور قابل شرم تصویر جو جناب میاں صاحب نے حضرت مسیح موعود کی کھینچی ہے۔ کیا اس قابل ہے کہ کسی عقل مند آدمی کے سامنے پیش کی جاسکے۔
مگر ہمارا فیصلہ ان دونوں کے خلاف ہے۔ نہ تو مرزا قادیانی بے علم تھے جیسا کہ قادیانی جانتے ہیں، نہ منکر نبوت جیسا کہ لاہوری کہتے ہیں۔ بلکہ مرزا قادیانی کو ابتدا ہی سے شوق تھا کہ کسی طرح میں نبی بن جاتا۔ لیکن چونکہ نبی بننا تو مشکل نہ تھا۔ مشکل تھا تسلیم کروانا۔
اس لئے مرزا قادیانی نے سیاسی چال اختیار کی کہ پہلے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ