خلیفہ قادیانی کہتے ہیں کہ نبوت صرف حضور کے فیضان سے اور اتباع واقتداء سے مل سکتی ہے۔ اس لئے مرزا قادیانی نبی اﷲ ہیں۔
معلوم ہوا کہ نبوت اتباع واقتداء سے مل سکتی ہے تو یہ نبوت تو کسبی ہوئی جس کے فلسفی قائل ہیں، نہ وہبی ۔ حالانکہ اسلام میں نبوت کسبی کوئی چیز ہی نہیں۔
(دیکھو عقیدہ کفریہ نمبر۴ اکتساب نبوت)
پھر یہ کہ حضور کے فیضان سے بنے ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ایک نبوت وہ ہے جو خدا عطا فرمائے اور ایک وہ جو نبی عطا کرے حالانکہ عطائے نبوت منصب الوہیت ہے، نہ منصب نبوت، خدا فرماتا ہے: ’’اﷲ اعلم حیث یجعل رسالتہ‘‘ اﷲ جانتا ہے کہ کون مستحق نبوت ہے کہ اس کو نبی بنایا جائے ۔
اور اگر حضور کے فیضان سے ہی نبوت ملی تو کیا حضور کا فیضان اب تیرہ سو برس کے بعد ظاہر ہوا اور وہ بھی قادیان میں۔ اس سے پہلے کا زمانہ فیضان نبی سے بالکل خالی گیا اور فیضان نے کچھ اثر نہ کیا۔ کم از کم ہر صدی میں ایک نبی اﷲ ضرور ہوتا۔ قادیان کے اس اصول سے تو حضور کی سخت ہتک ہوئی۔
یا تیرہ سو برس کے زمانہ میں صحابہ، اولیائ، اقطاب میں کوئی اس قابل نہیں ہوا کہ حضور کے فیضان کو قبول کرتا سوائے مرزا قادیانی اس صورت سے امت محمدیہﷺ کی سخت ہتک کی۔
پس جبکہ ثابت ہوگیا کہ حضورﷺ کے بعد دروازہ نبوت کا بند ہے۔ کسبی نبوت کوئی چیز نہیں۔ نبی کے فیضان کے واسطے سے نبوت نہیں ملتی بلکہ بلاواسطہ خدا کی عطا سے۔ تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرزا قادیانی ہرگز نبی اﷲ نہ تھے۔
(حقیقت النبوۃ ص۲۲۱) ’’حضرت مسیح مو عود کا یہ فرمانا کہ رسو ل اﷲ کے افاضہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے مجھے مقام نبوت پرپہنچایا۔ ثابت کرتا ہے کہ آپ کو واقع میں نبی بنا دیا گیا۔‘‘
مرزا قادیانی کے نبی بننے سے حضورﷺ کے افاضہ کا کمال نہیں ثابت ہوتا بلکہ معاذ اﷲ تنقیص ہوتی ہے کہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضورﷺ کا اس قدر افاضہ کمزور تھا کہ صرف تیرہ سو برت میں صرف مرزا قادیانی نبی ہوئے۔ معلوم ہوا کہ کمال افاضہ نبی بنانے کے لئے نہیں بلکہ ولی بنانے کے لئے ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی واقع میں نبی نہ تھے اور چونکہ نبوت کا دعویٰ کیا اس لئے نہ ولی ہوئے، نہ مجدد کچھ بھی نہ ملا۔