کے جزئیات میں سینکڑوں کفریات۔
ان عقائد مذکورہ میں بعض تو کفر ہیں بعض مذہب اہلسنت وجماعت کے خلاف تو کیا ایسا شخص مسلمان ہونے کا بھی مدعی ہوسکتا ہے؟ چہ جائیکہ مجدد وغیرہ۔ ناظرین خود پڑھیں خود انصاف فرمالیں۔ قدتبین الرشد من الغئی۔
ضرورت تو نہیں کہ اب مرزا قادیانی کے آئندہ دعاوی پر نظر کی جائے لیکن تحقیق حق کی غرض سے اب انشاء اﷲ مرزا قادیانی کے ملہمیت اور مجددیت پر دوسرے حصہ میں مفصل بحث کریں گے۔
یہاں تک تو ہم نے مرزا قادیانی کے مذہبیات نقل کردئیے۔ اب ذرا سیاست پر نظر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ نبی اور وہ بھی خاتم الانبیاء بننے کا مدعی ہو اس کی ایسی کمزور سیاست ہوسکتی ہے۔
سیاسیات
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵) ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر ہوا ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دل خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں۔ ‘‘(گورنمنٹ کی خیر خواہی میں مسئلہ جہاد کو مرزا قادیانی نے بند کرنا چاہا)
(تحریر مرزا، مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص۴۴۳) ’’میں نے بائیس برس سے اپنے ذمہ یہ فرض کررکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں جہاد کی مخالفت ہو، اسلامی ممالک میں ضرور بھیج دیا کروں۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۷۰) ’’میں اپنے کام کو (دعویٰ نبوت ومہدویت ومسیحیت) نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں۔ نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں، نہ ایران میں، نہ کابل میں (کیونکہ یہ تمام اسلامی سلطنتیںمرزا قادیانی جیسے باطل پرستوں کو دم زدن میں دنیا سے نیست کردیں۔ جیسا کہ کابل میں دو قادیانیوں کو قتل کردیا گیا اور اعلیٰ حضرت امیر حبیب اﷲ خان والی کابلؒ کو جب مرزا قادیانی نے دعوتی خط بھیجا اور اپنے دعاوی باطلہ کا ذکر کیا تو وہاں سے جواب آیا: ’’ایں جابیا‘‘ کہ اے مرزا قادیانی یہاں آجائو۔ مگر مرزا قادیانی کیوں نہ گئے۔ مجدد ومہدی کو تو اس