براہ راست کود ہی فرماتی ہے۔ ’’واصبر لحکم ربک فانک باعیننا (الطور:۴۸)‘‘
اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر کیجئے۔ آپ تو ہماری نگرانی میں اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں… ایک صحیح حدیث میں ہے کہ بندہ عبادات نافلہ کرتے کرتے آخر اس مقام تک جاپہنچتا ہے۔ جہاں رضاء الٰہی میں وہ اس طرح گم ہوکر رہ جاتا ہے کہ پھر نہ خود اس کی ہستی قائم رہتی ہے اور نہ اس کے اعمال کی بلکہ وہ سب براہ راست حضرت حق سبحانہ کی طرف منسوب ہونے لگتے ہیں۔ وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے تو صرف وہی جو اﷲ کی نظر میں پسندیدہ ہو اور ہاتھ بڑھاتا اور قدم اٹھاتا ہے تو صرف اس طرف جدھر حق جل وعلاء کی مرضی ہوتی ہے۔ اب سوچئے کہ اس کی اس طرح گمشدگی کے بعد اس کے اعضاء اور جوارح میں کیا کسی معصیت کے لئے حرکت کرنے کی مجال باقی رہ سکتی ہے… جب ان افراد کا حال یہ ہو جن کے کمالات کسب واکتساب کا ثمرہ ہوتے ہیں تو پھر ان اولوالعزم ہستیوں کی عصمت کا پوچھنا کیا ہے۔ جن کو یہ نعمت صفت اجتباء واصطفاء کی بدولت روز اوّل ہی سے میسر ہو۔ جن کی عصمت کا اندازہ کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ جو ان کے نقش قدم پر چل پڑا اس کے اعضاء بھی خدا کی معصیت کے لئے شل ہوگئے۔
(ترجمان السنہ ج۳ ص۳۱۱،۳۳۲)
اب ان پاکیزہ اسلامی عقائد کے بالمقابل مرزاغلام احمد قادیانی کے ان ارشادات کو دیکھئے جن میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ ان کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہوناضروری نہیں بلکہ نعوذ باﷲ وہ اختلاف ڈالنے والے فسادی، شرابی، چور، کنجریوں کے دلدادہ، فاحشہ عورتوں سے خدمت لینے والے، جھوٹے، بدزبان، شریر، مکار اور شعبدہ باز ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ نبوت کوئی کسبی چیز نہیں ہے۔ خالص عطیہ خداوندی ہوتا ہے اور عصمت لازمۂ نبوت ہے۔ کیونکہ انبیاء ہمیشہ اﷲتعالیٰ کے برگزیدہ بندے، منتخب بندے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مرزاقادیانی کے یہ گھناؤنے الزامات ان کی طرف منسوب کرنا۔
بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تابہ کجا
کیا مرزائی عقیدہ نعوذ باﷲ خدا تعالیٰ کے انتخاب کو غلط قرار دینے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا ایسی ہی ہستیوں کو اﷲتعالیٰ امتوں کے لئے عمل کے نمونے بنا کر بھیجتا ہے۔ جن کی اپنی زندگیاں آلودہ ہیں۔
ہے کوئی بدمست اور کوئی ہے جان بلب
کیا یہی ہے تیرا آب حیات اے ساقی؟