السلام کو برا کہا، ورنہ ایسا نہ کرتے، محض جہالت ونادانی ہے۔ ہمارے دونوں بزرگ ہیں۔ دونوں نبی ہیں، ہمیں کب لائق ہے کہ کوئی حضور کو برا کہے تو ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معاذ اﷲبرا کہہ دیں۔ مرزا قادیانی خود دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں کہ:
’’بعض جاہل مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم ص۵۴۴)
اور خود اس نصیحت پر عمل نہیں کرتے۔ ’’اتا مرون الناس بالبر وتنسون انفسکم‘‘اپنی ہی زبان سے جاہل نادان بنتے ہیں۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’اگر ایک مسلمان عیسائی کے عقیدہ پر اعتراض کرے تو اس کو چاہئے کہ اعتراض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان اور عظمت کا پاس رکھے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۷۱)
مگر خود عیسائیوں کے ساتھ گفتگو میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرکے مسلمانوں کی فہرست سے نام کٹواتے ہیں۔ لم تقولون ما لا تفعلون۔ کیوں وہ بات کہتے ہیںجو خود نہیں کرتے۔
(ازالہ اوہام ص۶۲۹، خزائن ج۳ ص۴۳۹) ’’ایک بادشاہ کے زمانہ میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارے میں پیشین گوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست ہوئی۔ نبی تسلیم کرتے ہوئے پھر ان کی پیشین گوئیوں پر حملہ کرنا اور جھوٹا بتانا سخت توہین ہے۔‘‘
اس جملہ کا شان نزول یہ ہے کہ جب مرزا قادیانی کی پیشین گوئیاں بالکل غلط نکلیں اور مسلمانوں نے اعتراض شروع کئے تو فوراً کہہ دیا کہ اگر میری پیشین گوئی غلط نکلی تو کیا ہوا بہت انبیاء پیشین گوئی میں معاذ اﷲ جھوٹے ہوچکے۔ اس طرح اپنے تقدس کو جمانے کے لئے دوسروں کے تقدس پر حملہ کیا۔
(ازالہ اوہام ص۷۵۳، خزائن ج۳ ص۵۰۶) ’’قرآن کریم میں چار پرندوں کا ذکر لکھا ہے کہ ان کے اجزاء متفرقہ جدا جدا کرکے چار پہاڑیوں پر چھوڑ گیا تھا اور پھر وہ بلانے سے آگئے تھے، یہ بھی عمل الترب (شعبدہ بازی) کی طرف اشارہ ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۴۸، خزائن ج۳ ص۵۰۳) ’’قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض مردے زندہ ہوگئے تھے جیسے وہ مردہ جس کا خون بنی اسرائیل نے چھپا لیا تھا۔ اس قصہ سے واقعی طور پر زندہ ہونا ہرگز ثابت نہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ صرف دھمکی تھی کہ چور بیدل ہوکر اپنے تئیں ظاہر کردے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ طریق عمل الترب یعنی مسمریزمی کا ایک شعبہ تھا۔‘‘