اس طرح استعمال کرنا عرف میں استہزا شمار کیا جاتا ہے۔ ) یہ پیشین گوئی بھی کی تھی کہ ابھی یہ تمام لوگ زندہ ہوں گے کہ پھر واپس آجائوں گا۔حالانکہ نہ صرف وہ لوگ بلکہ انیس نسلیں ان کے بعد انیس صدیوں میں مرچکیں مگر آپ اب تک تشریف نہ لائے۔ خود تو وفات پاچکے۔‘‘
(بالکل غلط بلکہ وہ حیات ہیں) مگر اس جھوٹی پیشین گوئی کا کلنک اب تک پادریوں کی پیشانی پر باقی ہے۔ (جس طرح مرزائی جماعت کے سینہ پر سلطان محمد کی موت کی غلط پیشین گوئی کا پتھر دھرا ہے)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کو جھوٹا کہا اور نہ سمجھا کہ جب وہ آسمان سے تشریف لائیں گے تو مرزا قادیانی کی قبر پر تکذیب وافترا کے ہار ڈالے جائیں گے اور مرزائیوں کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔
(جنگ مقدس ص۱۹۸، خزائن ج۶ ص۲۸۰) ’’مسیح کا بے باپ پیدا ہونا میری نگاہ میں کچھ عجوبہ نہیں۔ (مرزا قادیانی کی نگاہ ہی نہیں دیکھیں کس چیز سے) حضرت آدم ماں اور باپ دونوں نہیں رکھتے تھے۔ اب قریب برسات آئی ہے، باہر جاکر دیکھئے کتنے کیڑے مکوڑے بغیر ماں باپ کے ہوجاتے ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کو کہا کہ کوئی عجب بات نہیں۔ حالانکہ خدا فرماتا ہے ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل آدم پھر ان کی پیدائش کو کس برے طرز سے ادا کیا کہ ان کی پیدائش ایسی ہے جیسے کیڑے مکوڑے کی پیدائش، اگر کوئی مرزا قادیانی کو کہے کہ آپ کی پیدائش ایسی ہے جیسے کیڑے مکوڑے کی تو مرزا قادیانی کو برا نہ لگے گا۔
(ازالہ اوہام ص۳۰۳، خزائن ج۳ ص۲۵۴ حاشیہ) ’’حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام کرتے رہے۔ ‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اﷲ روح اﷲ تھے۔ ان کا کوئی باپ نہ تھا، نہ حضرت مریم کا کوئی شوہر تھا۔ یوسف کو عیسیٰ علیہ السلام کا باپ بتانا قرآن کے خلاف جو بالکل کفر ہے۔
(انجام آتھم ص۶۸، خزائن ج۱۱ ص۶۸) ’’میں کسی خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں اور نہ خونی مہدی کا منتظر۔ یعنی جو اہل اسلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدیؓ کے منتظر ہیں، وہ خونی ہے۔ خونی اس شخص کو کہتے ہیں جو قتل ناحق کرے تو مطلب یہ ہوا کہ یہ دونوں بزرگ ہستیاں ناحق قتل کریں گے۔ یہی کفر ہے۔ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اﷲ کریں گے۔ اس لئے خونی ہیں تو رسول اﷲﷺ اور تمام صحابہ کرام جس جس نے جہاد کیا، سب معاذ اﷲ